Thursday, March 14, 2013

عدیم ہاشمی : تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے

تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے
محبتیں بھی ہیں اور درمیاں اَنا بھی ہے

یہ ٹھیک، تجھ کو شکایت بھی ہے، گلہ بھی ہے
تُو یہ بتا کہ تجھے میں نے کچھ کہا بھی ہے

کوئی بھی پُل ہو ، وہ دو ساحلوں پہ بنتا ہے
گر ایک دل ہے تِرا، ایک دل مِرا بھی ہے

یہ تیری بات ہے، آیت نہیں ، حدیث نہیں
کوئی تِرا تو کوئی میرا فیصلہ بھی ہے

پیالہ بھر تو لیا ہے جُدائی کا تُو نے
مجھے بتا کہ کبھی زہر یہ پیا بھی ہے؟

تعلقات کو اُتنا رکھا ہے، جتنے ہیں
قریب بھی ہے، مُناسب سا فاصلہ بھی ہے

ہوس کو چھانے دیا کم عدیم چاہت پر
کبھی کبھی یہ مگر واقعہ ہوا بھی ہے

عدیم ہاشمی : ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدہء تَر بھی


ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدہء تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی

بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی

پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی

درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدہء تر بھی

یہ شہرِِ جدائی ہے، اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی

کچھ پیاس ہے اُس حُسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حُسن کا پیاسا ہے مِرا حُسنِ نظر بھی

کیا عِشق ہے، کیا حُسن ہے، کیا جانیئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی

تُو چشمِ عنایت سے ذرا رُخ تو اِدھر کر
کافی ہے تِری ایک محبت کی نظر بھی

کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی

کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لیے ہے تو مِرے دل میں اُتر بھی

عدیم ہاشمی : فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا

فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا
پڑ گیا ہے دل پہ پہلے ہی نِشاں زنجیر کا

خط چُھپاؤں کِس طرح سے محرمِ دل گیِر سے
لفظ ہر اِک بولتا ہے پیار کی تحریر کا

باقی سارے خط پہ دھبے آنسوُؤں کے رہ گئے
ایک ہی جملہ پڑھا میں نے تِری تحریر کا

تیرے چہرے کا تاثر، تیری آنکھوں کا خُمار
حُسن ایسا تو نہیں ہے وادئ کشمیر کا

موتیوں جیسے ہیں آنسُو، پُھول جیسی ہے ہنسی
کونسا رُخ سامنے رکھوں تِری تصویر کا

کوئی کہتا ہے ملیں گے، کوئی کہتا ہے نہیں
کچھ پتا چلتا نہیں ہے خواب کی تعبیر کا

جو نصیبوں میں نہیں ہے، وہ ذرا لے لوں عدیم
وہ تو مل ہی جائے گا ، حصّہ ہے جو تقدیر کا

دوستوں سے بھی تعلق بن گیا ہے وہ عدیم
جو تعلق ہے کِسی شمشِیر سے شمشِیر کا

عدیم ہاشمی : کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف


کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف
مُنصِف تو ہو گیا ہے گنہگار کی طرف

معلُوم ہو تجھے کہ ہے دستِ بریدہ کیا
اُنگلی اُٹھا کے دیکھ مِرے یار کی طرف

قاتِل ہے حُسن اگر، تو ہے قاتِل کا کیا قصُور
خُود کِھنچ رہی ہیں گردنیں تلوار کی طرف

زَر کی کشش نے کھینچ لیا سارے شہر کو
بازار چل پڑے ہیں خریدار کی طرف

سارا جہاں کھڑا تھا ضرُورت کی چھاؤں میں
کوئی گیا نہ سایۂ دیوار کی طرف

سُوکھے ہوئے شجر پہ کوئی زخم بھی نہیں
پتھر بھی آئے نخلِ ثمر دار کی طرف

حیراں ہوں پھر بھی عکسِ رُخِ یار کِس طرح
جب آئینہ نہیں ہے رُخِ یار کی طرف

سب قبلہ رُو ہوئے تھے عبادت کے واسطے
میں نے کیا ہے رُخ تِری دیوار کی طرف

دھاگے میں کچھ پروئے ہوئے پُھول تھے عدیم
پہلے خزاں چلی ہے اُسی ہار کی طرف

عدیم ہاشمی : دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک


دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک
اپنی نظر ہی رہ گئی گرد و غبار تک

موسم بھی اپنی اپنی حدوں کے اِسیر ہیں
عہدِ خزاں ہے آمدِ فصلِ بہار تک

صحن خزاں میں پاؤں دھرے، کیا مجال ہے
فصلِ بہار قید ہے فصلِ بہار تک

معیاد قید ایک گھڑی پیش و کم نہیں
ممکن نہیں ہے قیدِ جہاں سے فرار تک

جو لکھ دیا جبیں پہ، اُسے لکھ دیا گیا
پابند اُس کے بعد ہے پرَوردگار تک

قسمت میں جو نہیں ہے، ملے گا وہ کِس طرح
ترک اِس لیے کِیا ہے تِرا اِنتظار تک

لکھا نہیں ہے وصل فقط کاتبین نے
تحریر ہو رہا ہے تِرا اِنتظار تک

اپنے کنوئیں ہیں جِن میں پُھدکتے ہیں سارے لوگ
محصُور ہیں عدیم سب اپنے حصار تک

عدیم ہاشمی : تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا


تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا
ڈُھونڈتے ہو کِس لیے کوئی سہارا دوسرا

تب کہیں سمجھا ہوں میں اُس کا اشارہ دوسرا
اُس نے میرے ہاتھ پر جب ہاتھ مارا دوسرا

اِتنی دُنیا، اِتنے چہرے، اِتنی آنکھیں چار سُو
اُس نے پھر بھی کر دیا مجھ کو اِشارہ دوسرا

آسماں پر کوئی تھوڑے سے سِتارے تو نہیں
ایک چمکے کم اگر، چُن لو سِتارہ دوسرا

مجھ کو تو پہلا کِنارہ بھی نظر آتا نہیں
ہے کہاں بحرِ فلک تیرا کِنارہ دوسرا

درمیاں پردہ رہا اِک دِن تکلف کا بہت
بھید سارا کُھل گیا جب دِن گزارا دوسرا

تب کہیں مہندی لگا وہ ہاتھ پہچانا گیا
اُس نے دَر کی اوٹ سے جب پُھول مارا دوسرا

جان دے دی اُس کے پہلے ہی اِشارے پر عدیم
میں نے دیکھا ہی نہیں اُس کا اِشارہ دوسرا

عدیم ہاشمی : اور ہے، اپنی کہانی اور ہے


اور ہے، اپنی کہانی اور ہے
داستاں اُس کو سُنانی اور ہے

میں تو سویا تھا ستارے اُڑھ کر
یہ رِدائے آسمانی اور ہے

ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اُس سمندر کا تو پانی اور ہے

پُھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اُس کی اِک عادت پُرانی اور ہے

اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے

اُس کے گھر کی اِک نشانی اور ہے

یُوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اِک عہدِ جوانی اور ہے

پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے

عدیم ہاشمی : اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا


اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا
وصل تھا یا وصال تھا، کیا تھا

عشق ماہی مثال تھا، کیا تھا
دل کے دریا میں جال تھا، کیا تھا

تم تو ایسے مجھے نہیں لگتے
یہ تمہارا خیال تھا، کیا تھا

کچھ سفید اور کچھ سیاہ تھے بال
میرا ماضی تھا، حال تھا، کیا تھا

نِیم وا چشم، نِیم وا سا دَہن
یہ سوالِ وصال تھا، کیا تھا

ایک تخلیق، ایک چشمِ حسیں
وہ غزل تھی، غزال تھا، کیا تھا

اِتنی بےچینیاں، خُدا کی پناہ
یہ مِرے دل کا حال تھا، کیا تھا

مِٹ گیا ایک اشک بہتے ہی
تِرے چہرے پہ خال تھا، کیا تھا

خُود کھنچے جا رہے تھے جِسم عدیم
لمحۂ اِتّصال تھا، کیا تھا

عدیم ہاشمی : مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا


مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا
بشر، آدمی سے خُدا ہو گیا

بھلا ہو گیا یا بُرا ہو گیا
چلو کوئی تو فیصلہ ہو گیا

وہ پہلے بھی جو بےوفا ہو گیا
یہ دل پھر اُسی پر فِدا ہو گیا

اُسی سے نظر پھر سے ٹکرا گئی
دوبارہ وہی حادثہ ہو گیا

یہاں دل دیا اور وہاں دل دیا
محبت تو کھیل آپ کا ہو گیا

جو ملِنے کے وعدے تھے، وعدے رہے
بِچھڑنے کا وعدہ وفا ہو گیا

وہ کیا تِیر ہے، جو نہ دل میں گڑے
نشانہ وہ کیا، جو خطا ہو گیا

دل و چشم یوں باد و بارَاں بنے
جو سُوکھا تھا جنگل، ہَرا ہو گیا

جو سِکہ کھرا تھا، وہ کھوٹا ہوا
جو کھوٹا تھا سِکہ، کھرا ہو گیا

یہ دل جو کہ میرا تھا، میرا نہیں
یہ دل آج سے آپ کا ہو گیا

جو باقی تھا ، باقی رہا وہ عدیم
جو فانی تھا، خُود ہی فنا ہو گیا

عدیم ہاشمی : فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں


فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا، کہاں پایا گیا ہوں

میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں

نہیں عرض و گزارش میرا شیوَہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں

بتا اے انتہائے حسنِ دنیا
میں بہکا ہوں کہ بہکایا گیا ہوں

مجھے یہ تو بتا اے شدتِ وصل
میں لِپٹا ہوں کہ لِپٹایا گیا ہوں

بدن بھیگا ہوا ہے موتِیوں سے
یہ کِس پانی سے نہلایا گیا ہوں

اگر جانا ہی ٹھہرا ہے جہاں سے
تو میں دُنیا میں کیوں لایا گیا ہوں

یہ میرا دل ہے یا تیری نظر ہے
میں تڑپا ہوں کہ تڑپایا گیا ہوں

مجھے اے مہرباں یہ تو بتا دے
میں ٹھہرا ہوں کہ ٹھہرایا گیا ہوں

تِری گلیوں سے بچ کر چل رہا تھا
تِری گلیوں میں ہی پایا گیا ہوں

جہاں روکی گئی ہیں میری کِرنیں
وہاں میں صورتِ سایہ گیا ہوں

عدیم اِک آرزُو تھی زِندگی میں
اُسی کے ساتھ دفنایا گیا ہوں