Thursday, March 14, 2013

عدیم ہاشمی : تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے

تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے
محبتیں بھی ہیں اور درمیاں اَنا بھی ہے

یہ ٹھیک، تجھ کو شکایت بھی ہے، گلہ بھی ہے
تُو یہ بتا کہ تجھے میں نے کچھ کہا بھی ہے

کوئی بھی پُل ہو ، وہ دو ساحلوں پہ بنتا ہے
گر ایک دل ہے تِرا، ایک دل مِرا بھی ہے

یہ تیری بات ہے، آیت نہیں ، حدیث نہیں
کوئی تِرا تو کوئی میرا فیصلہ بھی ہے

پیالہ بھر تو لیا ہے جُدائی کا تُو نے
مجھے بتا کہ کبھی زہر یہ پیا بھی ہے؟

تعلقات کو اُتنا رکھا ہے، جتنے ہیں
قریب بھی ہے، مُناسب سا فاصلہ بھی ہے

ہوس کو چھانے دیا کم عدیم چاہت پر
کبھی کبھی یہ مگر واقعہ ہوا بھی ہے

عدیم ہاشمی : ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدہء تَر بھی


ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدہء تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی

بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی

پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی

درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدہء تر بھی

یہ شہرِِ جدائی ہے، اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی

کچھ پیاس ہے اُس حُسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حُسن کا پیاسا ہے مِرا حُسنِ نظر بھی

کیا عِشق ہے، کیا حُسن ہے، کیا جانیئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی

تُو چشمِ عنایت سے ذرا رُخ تو اِدھر کر
کافی ہے تِری ایک محبت کی نظر بھی

کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی

کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لیے ہے تو مِرے دل میں اُتر بھی

عدیم ہاشمی : فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا

فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا
پڑ گیا ہے دل پہ پہلے ہی نِشاں زنجیر کا

خط چُھپاؤں کِس طرح سے محرمِ دل گیِر سے
لفظ ہر اِک بولتا ہے پیار کی تحریر کا

باقی سارے خط پہ دھبے آنسوُؤں کے رہ گئے
ایک ہی جملہ پڑھا میں نے تِری تحریر کا

تیرے چہرے کا تاثر، تیری آنکھوں کا خُمار
حُسن ایسا تو نہیں ہے وادئ کشمیر کا

موتیوں جیسے ہیں آنسُو، پُھول جیسی ہے ہنسی
کونسا رُخ سامنے رکھوں تِری تصویر کا

کوئی کہتا ہے ملیں گے، کوئی کہتا ہے نہیں
کچھ پتا چلتا نہیں ہے خواب کی تعبیر کا

جو نصیبوں میں نہیں ہے، وہ ذرا لے لوں عدیم
وہ تو مل ہی جائے گا ، حصّہ ہے جو تقدیر کا

دوستوں سے بھی تعلق بن گیا ہے وہ عدیم
جو تعلق ہے کِسی شمشِیر سے شمشِیر کا

عدیم ہاشمی : کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف


کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف
مُنصِف تو ہو گیا ہے گنہگار کی طرف

معلُوم ہو تجھے کہ ہے دستِ بریدہ کیا
اُنگلی اُٹھا کے دیکھ مِرے یار کی طرف

قاتِل ہے حُسن اگر، تو ہے قاتِل کا کیا قصُور
خُود کِھنچ رہی ہیں گردنیں تلوار کی طرف

زَر کی کشش نے کھینچ لیا سارے شہر کو
بازار چل پڑے ہیں خریدار کی طرف

سارا جہاں کھڑا تھا ضرُورت کی چھاؤں میں
کوئی گیا نہ سایۂ دیوار کی طرف

سُوکھے ہوئے شجر پہ کوئی زخم بھی نہیں
پتھر بھی آئے نخلِ ثمر دار کی طرف

حیراں ہوں پھر بھی عکسِ رُخِ یار کِس طرح
جب آئینہ نہیں ہے رُخِ یار کی طرف

سب قبلہ رُو ہوئے تھے عبادت کے واسطے
میں نے کیا ہے رُخ تِری دیوار کی طرف

دھاگے میں کچھ پروئے ہوئے پُھول تھے عدیم
پہلے خزاں چلی ہے اُسی ہار کی طرف

عدیم ہاشمی : دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک


دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک
اپنی نظر ہی رہ گئی گرد و غبار تک

موسم بھی اپنی اپنی حدوں کے اِسیر ہیں
عہدِ خزاں ہے آمدِ فصلِ بہار تک

صحن خزاں میں پاؤں دھرے، کیا مجال ہے
فصلِ بہار قید ہے فصلِ بہار تک

معیاد قید ایک گھڑی پیش و کم نہیں
ممکن نہیں ہے قیدِ جہاں سے فرار تک

جو لکھ دیا جبیں پہ، اُسے لکھ دیا گیا
پابند اُس کے بعد ہے پرَوردگار تک

قسمت میں جو نہیں ہے، ملے گا وہ کِس طرح
ترک اِس لیے کِیا ہے تِرا اِنتظار تک

لکھا نہیں ہے وصل فقط کاتبین نے
تحریر ہو رہا ہے تِرا اِنتظار تک

اپنے کنوئیں ہیں جِن میں پُھدکتے ہیں سارے لوگ
محصُور ہیں عدیم سب اپنے حصار تک

عدیم ہاشمی : تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا


تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا
ڈُھونڈتے ہو کِس لیے کوئی سہارا دوسرا

تب کہیں سمجھا ہوں میں اُس کا اشارہ دوسرا
اُس نے میرے ہاتھ پر جب ہاتھ مارا دوسرا

اِتنی دُنیا، اِتنے چہرے، اِتنی آنکھیں چار سُو
اُس نے پھر بھی کر دیا مجھ کو اِشارہ دوسرا

آسماں پر کوئی تھوڑے سے سِتارے تو نہیں
ایک چمکے کم اگر، چُن لو سِتارہ دوسرا

مجھ کو تو پہلا کِنارہ بھی نظر آتا نہیں
ہے کہاں بحرِ فلک تیرا کِنارہ دوسرا

درمیاں پردہ رہا اِک دِن تکلف کا بہت
بھید سارا کُھل گیا جب دِن گزارا دوسرا

تب کہیں مہندی لگا وہ ہاتھ پہچانا گیا
اُس نے دَر کی اوٹ سے جب پُھول مارا دوسرا

جان دے دی اُس کے پہلے ہی اِشارے پر عدیم
میں نے دیکھا ہی نہیں اُس کا اِشارہ دوسرا

عدیم ہاشمی : اور ہے، اپنی کہانی اور ہے


اور ہے، اپنی کہانی اور ہے
داستاں اُس کو سُنانی اور ہے

میں تو سویا تھا ستارے اُڑھ کر
یہ رِدائے آسمانی اور ہے

ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اُس سمندر کا تو پانی اور ہے

پُھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اُس کی اِک عادت پُرانی اور ہے

اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے

اُس کے گھر کی اِک نشانی اور ہے

یُوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اِک عہدِ جوانی اور ہے

پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے

عدیم ہاشمی : اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا


اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا
وصل تھا یا وصال تھا، کیا تھا

عشق ماہی مثال تھا، کیا تھا
دل کے دریا میں جال تھا، کیا تھا

تم تو ایسے مجھے نہیں لگتے
یہ تمہارا خیال تھا، کیا تھا

کچھ سفید اور کچھ سیاہ تھے بال
میرا ماضی تھا، حال تھا، کیا تھا

نِیم وا چشم، نِیم وا سا دَہن
یہ سوالِ وصال تھا، کیا تھا

ایک تخلیق، ایک چشمِ حسیں
وہ غزل تھی، غزال تھا، کیا تھا

اِتنی بےچینیاں، خُدا کی پناہ
یہ مِرے دل کا حال تھا، کیا تھا

مِٹ گیا ایک اشک بہتے ہی
تِرے چہرے پہ خال تھا، کیا تھا

خُود کھنچے جا رہے تھے جِسم عدیم
لمحۂ اِتّصال تھا، کیا تھا

عدیم ہاشمی : مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا


مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا
بشر، آدمی سے خُدا ہو گیا

بھلا ہو گیا یا بُرا ہو گیا
چلو کوئی تو فیصلہ ہو گیا

وہ پہلے بھی جو بےوفا ہو گیا
یہ دل پھر اُسی پر فِدا ہو گیا

اُسی سے نظر پھر سے ٹکرا گئی
دوبارہ وہی حادثہ ہو گیا

یہاں دل دیا اور وہاں دل دیا
محبت تو کھیل آپ کا ہو گیا

جو ملِنے کے وعدے تھے، وعدے رہے
بِچھڑنے کا وعدہ وفا ہو گیا

وہ کیا تِیر ہے، جو نہ دل میں گڑے
نشانہ وہ کیا، جو خطا ہو گیا

دل و چشم یوں باد و بارَاں بنے
جو سُوکھا تھا جنگل، ہَرا ہو گیا

جو سِکہ کھرا تھا، وہ کھوٹا ہوا
جو کھوٹا تھا سِکہ، کھرا ہو گیا

یہ دل جو کہ میرا تھا، میرا نہیں
یہ دل آج سے آپ کا ہو گیا

جو باقی تھا ، باقی رہا وہ عدیم
جو فانی تھا، خُود ہی فنا ہو گیا

عدیم ہاشمی : فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں


فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا، کہاں پایا گیا ہوں

میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں

نہیں عرض و گزارش میرا شیوَہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں

بتا اے انتہائے حسنِ دنیا
میں بہکا ہوں کہ بہکایا گیا ہوں

مجھے یہ تو بتا اے شدتِ وصل
میں لِپٹا ہوں کہ لِپٹایا گیا ہوں

بدن بھیگا ہوا ہے موتِیوں سے
یہ کِس پانی سے نہلایا گیا ہوں

اگر جانا ہی ٹھہرا ہے جہاں سے
تو میں دُنیا میں کیوں لایا گیا ہوں

یہ میرا دل ہے یا تیری نظر ہے
میں تڑپا ہوں کہ تڑپایا گیا ہوں

مجھے اے مہرباں یہ تو بتا دے
میں ٹھہرا ہوں کہ ٹھہرایا گیا ہوں

تِری گلیوں سے بچ کر چل رہا تھا
تِری گلیوں میں ہی پایا گیا ہوں

جہاں روکی گئی ہیں میری کِرنیں
وہاں میں صورتِ سایہ گیا ہوں

عدیم اِک آرزُو تھی زِندگی میں
اُسی کے ساتھ دفنایا گیا ہوں

عدیم ہاشمی : اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی

اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی
بڑھتی ہے اِس طرح بھی محبت کبھی کبھی

پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اِس طرح
آئی ہے کام یُوں بھی ضرُورت کبھی کبھی

ہوتے ہیں قُربتوں میں بھی محشر کئی بپَا
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی

پھر ایک بےپناہ سی شِدت کے واسطے
قُربان ہم نے کی تری قُربت کبھی کبھی

یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا کوئی دل میں ہے
محسُوس کی نہیں تیری چاہت کبھی کبھی

یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا ہے ہی کچھ نہیں
دُنیا پہ چھا گئی تری صورت کبھی کبھی

وہ جس کو دیکھ دیکھ کے جی تنگ آ گیا
اچھی بہت لگی وہی صُورت کبھی کبھی

سچائی تو ہے یہ کہ زمانے کے حُسن میں
یاد آئی ہی نہیں تری صُورت کبھی کبھی

دُنیا کی اور بات ہے، دُنیا تو غیر ہے
ہوتی ہے اپنے آپ سے وحشت کبھی کبھی

سارا ہی وقت، سارے جہاں کے لیے عدیم
اپنے لئے بھی چاہیئے فُرصت کبھی کبھی

دُوری کبھی کبھی بڑی اچھی لگی عدیم
اچھی نہیں لگی ہمیں قُربت، کبھی کبھی

عدیم ہاشمی : زندگی جب جہان میں آئی

    زندگی جب جہان میں آئی
    جان دُنیا کی جان میں آئی

    جیسے آیا شباب کشتی پر
    یوں ہوا بادبان میں آئی

    سانولی سی کوئی دُلہن جیسے
    چھاؤں یوں سائبان میں آئی

    چاند ملنے لگا تھا تاروں سے
    چاندنی درمیان میں آئی

    بات اِک داستان سے نکلی
    دوسری داستان میں آئی

    تیِر اُتنا ہی دُور مار ہوا
    جِتنی سختی کمان میں آئی

    ہم وفا کے بغیر بھی خوش تھے
    کیوں وفا درمیان میں آئی

    تیرے وہم و گمان سے نِکلی
    میرے وہم و گمان میں آئی

    یا تو آتی نہ تھی سُخن کی پری
    آئی تو ایک آن میں آئی

عدیم ہاشمی : وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں


وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں
ٹکرائی بھی تو جا کے نظر سے نظر کہاں

جانا ہے تم کو جاؤ، چلے ہو مگر کہاں
میں ڈُھونڈتا پھروں گا تمہیں دَر بہ دَر کہاں

قصرشہی کی بات ہے قصر شہی کے ساتھ
تیری گلی کہاں ، تِرے دیوار و دَر کہاں

دولت سے خوابگاہ تو جو بھی خرید لو
نِیندیں مگر خرید سکے مال و زَر کہاں

تُو آگ ہی لگا کے ذرا خُود کو دیکھ لے
تجھ پر یوُنہی پڑے گی کِسی کی نظر کہاں

میں اپنا آپ ڈُھونڈ رہا ہوں جہان میں
مجھ کو عدیم اور کِسی کی خبر کہاں

یہ کِس مقابلے کے لیے جا رہے ہو تم
آنسو کہاں عدیم، صدف کا گہر کہاں

عدیم ہاشمی : عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا

    عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا
    میں یہ سمجھتا رہا، اُس نے ایک وار کِیا

    عدیم دل کو ہر اِک پر نہیں نِثار کِیا
    جو شخص پیار کے قابل تھا، اُس کو پیار کِیا

    پھر اعتبار کِیا، پھر سے اعتبار کِیا
    یہ کام اُس کے لیے ہم نے بار بار کِیا

    کِسی سے کی ہے جو نفرت تو اِنتہا کر دی
    کِسی سے پیار کِیا ہے تو بےشمار کِیا

    نہ تھی وصال کو بھی کچھ مداخلت کی مجال
    جب اِنتظار کِیا، صِرف اِنتظار کِیا

    اُمیدِ وصل شبِ ہجر کے سمندر میں
    یہی لگا ہے کہ تِنکے پہ اِنحصار کِیا

    بہت حسین ہوئیں بےوفائیاں اُس کی
    یہ اُس نے جان کے خُود کو وفا شعار کِیا

    اُتر گیا کوئی دل سے تو قبر میں اُترا
    اُسے سدا کے لیے شاملِ غُبار کِیا

    وہ اب مرے کہ جئے دل پہ کوئی بوجھ نہیں
    میں مطمئن ہوں کہ پہلے اُسی نے وار کِیا

    قصُور اُس کا نہیں ہے، قصُور میرا ہے
    عدیم مَیں نے اُسے پیار بےشمار کیا

عدیم ہاشمی : شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی


شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی

ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے
کیوں ملاقات عُمر بھر نہ ہوئی

اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے
کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی

تیری قُربت کی روشنی کی قسم
صُبح آئی مگر سحر نہ ہوئی

ہم نے کیا کیا نہ کر کے دیکھ لیا
کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی

کتنے سُورج نِکل کے ڈُوب گئے
شامِ ہجراں ! تری سحر نہ ہوئی

اُن سے محفل رہی ہے روز و شب
دوستی اُن سے عُمر بھر نہ ہوئی

یہ رہِ روزگار بھی کیا ہے
ایسے بچھڑے کہ پھر خبر نہ ہوئی

اِس قدر دُھوپ تھی جُدائی کی
یاد بھی سایۂ شجر نہ ہوئی

شبِ ہجراں ہی کٹ سکی نہ عدیم
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی

عدیم ہاشمی : گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم


گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کُھلی آنکھیں دیکھیں، اِک خواب ہو تم اِک خواب ہیں ہم

کیا محشر خیز جُدائی ہے، کیا وصل قیامت کا ہو گا
جذبات کا اِک سیلاب ہو تم، جذبات کا اِک سیلاب ہیں ہم

آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اِک ساون ہے اِک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر، اِس وقت بہت سیَراب ہیں ہم

اِس وقت تلاطم خیز ہیں ہم، گردش میں تمہیں بھی لے لیں گے
اِس وقت نہ تیَر اے کشتئ دل، اِس وقت تو خُود گردَاب ہیں ہم

اِک ہنس پرانی یادوں کا، بیٹھا ہوا کنکر چنُتا ہے
تپتی ہوئی ہجر کی گھڑیوں میں، سُوکھا ہوا اِک تالاب ہیں ہم

اے چشم فلک، اے چشم زمیں، ہم لوگ تو پھر آنے کے نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم

کیا اپنی حقیقت، کیا ہستی، مٹی کا ایک حباب ہیں ہم
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم

عبدالحمید عدم : خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں

خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں

ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو پو گی
ساغر کو ذرا تھام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں

پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں

ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادہ گلفام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں

حل کچھ تو نکل آئے گا حالات کی ضد کا
اے کثرت آلام میں کچھ سوچ رہا ہوں

پھر آج عدم شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سر شام میں کچھ سوچ رہا ہوں

خمار بارہ بنکوی : ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی


ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شدّت نہیں رہی

ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی

سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی

کمزوریِ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی

ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے
دامانِ یار سے کوئی نسبت نہیں رہی

پیہم طوافِ کوچۂ جاناں کے دن گئے
پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی

چہرے کو جھُرّیوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی

اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمار
اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی

خمار بارہ بنکوی : جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں

اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں

اے جوشِ گریہ دیکھ! نہ کرنا خجل مجھے
آنکھیں مری ضرور ہیں، آنسو پرائے ہیں

اے موت! اے بہشت سکوں! آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں

جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں

انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں

سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں

کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں

خمار بارہ بنکوی : ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں

ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں

اگر تُو خفا ہو تو پروا نہیں
ترا غم خفا ہو تو مر جاؤں میں

تبسّم نے اتنا ڈسا ہے مجھے
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں

سنبھالے تو ہوں خود کو تجھ بن مگر
جو چھُو لے کوئی تو بکھر جاؤں میں

مبارک خمار آپ کو ترکِ مے
پڑے مجھ پر ایسی تو مر جاؤں میں

خمار بارہ بنکوی : کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے


کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن، ملے صورتیں بدل کر

یہ وفا کی سخت راہیں، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے، مرے ساتھ ساتھ چل کے

وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے

یہ چراغِ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تُو جلا وہ شمع اے دل! جو بجھے کبھی نہ جل کے

نہ تو ہوش سے تعارف، نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے

کوئی اے خمار ان کو مرے شعر نذر کر دے
جو مخالفینِ مخلص نہیں معترف غزل کے

خمار بارہ بنکوی : ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے


ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے
دو گنہگار زہر کھا بیٹھے

حالِ غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے، تیر کھا بیٹھے

آندھیو! جاؤ اب کرو آرام
ہم کود اپنا دیا بجھا بیٹھے

جی تو ہلکا ہوا مگر یارو
رو کے ہم لطفِ غم گنوا بیٹھے

بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے

جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم
سب نے چھیڑا تو لب ہلا بیٹھے

ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے

اٹھ کے اک بے وفا نے دے دی جان
رہ گئے سارے با وفا بیٹھے

حشر کا دن ابھی ہے دُور خمار
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے

خمار بارہ بنکوی : وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں


وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں
محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے
خمار اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں

خمار بارہ بنکوی : یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے


یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے
خدا ہے محبت، محبت خدا ہے

کہوں کس طرح میں کہ وہ بے وفا ہے
مجھے اس کی مجبوریوں کا پتا ہے

ہوا کو بہت سر کشی کا نشا ہے
مگر یہ بھولے دیا بھی دیا ہے

میں اس سے جدا ہوں وہ مجھ سے جدا ہے
محبت کے ماروں پہ فضلِ خدا ہے

نظر میں ہے جلتے مکانوں کا منظر
چمکتے ہیں جگنو تو دل کانپتا ہے

کبھی لمحے گننا، کبھی سانسیں گننا
وہ بچھڑے ہیں جب سے یہی مشغلہ ہے

گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے
کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے

بڑی جان لیوا ہیں ماضی کی یادیں
بھُلانے کو جی بھی نہیں چاہتا ہے

کہاں تُو خمار اور کہاں کفرِ توبہ!
تجھے پارساؤں نے بہکا دیا ہے
 

خمار بارہ بنکوی : نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے

وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائی یہ دائمی ہے

کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ، نئی روشنی ہے

جفاؤں پہ گھُٹ گھُٹ کے چُپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے

مرے راہبر! مجھ کو گمراہ کر دے
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

خمارِ بلا نوش! تُو اور توبہ!
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے

خمار بارہ بنکوی : حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجیے

حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجیے
عشق کی مغفرت کی دعا کیجیے

اس سلیقے سے ان سے گلہ کیجیے
جب گلہ کیجیے ہنس دیا کیجیے

دوسروں پر اگر تبصرہ کیجیے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجیے

آپ سُکھ سے ہیں ترکِ تعلق کے بعد
اتنی جلدی نہ یہ فیصلہ کیجیے

زندگی کٹ*رہی ہے بڑے چین سے
اور غم ہوں تو وہ بھی عطا کیجیے

کوئی دھوکا نہ کھا جائے میری طرح
ایسے کھُل کے نہ سب سے ملا کیجیے

عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سُنیے، دل کا کہا کیجیے

احمد فراز : دن کو مسمار ہوئے، رات کو تعمیر ہوئے


دن کو مسمار ہوئے ، رات کو تعمیر ہوئے
خواب ھی خواب فقط ، روح کی جاگیر ہوئے

عمر بھر لکھتے رہے ، پھر بھی ورق ساده رہا
جانے کیا لفظ تھے ، جو ھم سے نا تحریر ھوئے

یہ الگ دکھ ہے کے ، ہاں تیرے دکھوں سے آزاد
یہ الگ قید ہے ہم ، کیوں نا زنجیر ہوئے

دیده و دل میں تیرے ، عکس کی تشکیل سے ہم
دھول سے پھول ہوئے ، رنگ سے تصویر ہوئے

کچھ نهیں یاد گزشتہ شب کی محفل میں فراز
هم جدا کس سے ہوئے ، کس سے بغل گیر ہوئے

مرزا اسد اللہ خان غالب : کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

حسن عباس رضا : آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شد


آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شد
تم کیا گئے، کہ شوقِ نظارا تمام شد

کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے، تو دریا تمام شد

دنیا تو ایک برف کی سل سے سوا نہ تھی
پہنچی ذرا جو آنچ، تو دنیا تمام شد

عشاق پر یہ اب کے عجب وقت آپڑا
مجنوں کے دل سے حسرت لیلٰی تمام شد

شہرِ دل تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے
کیا بچ گیا ہے راکھ میں، اور کیا تمام شد

ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے
سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد

اک یاد یار ہی تو پس انداز ہے حسن
ورنہ وہ کار عشق تو کب کا تمام شد

خالد علیم : بنایا دشت میں خوشبو نے راستا بھی تو کیا


بنایا دشت میں خوشبو نے راستا بھی تو کیا
کہ آندھیوں کے مقابل چلی ہوا بھی تو کیا

ٹھہر ٹھہر کے سلگتا ہوا شرارۂ جاں
جلا کے پیرہن خاک بجھ گیا بھی تو کیا

کہیں ہوا نہ سبک سار عکس آئنہ ساز
خود اپنی تاب سے آئینہ جل اٹھا بھی تو کیا

ملی نہ اس کو تگ و دَو کی گرمیِ آفاق
لہو بدن کی رگوں میں رواں ہوا بھی تو کیا

وہ سیل موج کہ اپنے حصار میں گم ہے
سمندروں کی تہوں سے ابل پڑا بھی تو کیا

بقدر رنگ نمو ہے فقط مہک اُس کی
”نفس کے زور سے وہ غنچہ وا ہوا بھی تو کیا

اعتبار ساجد : بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہوں

بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہوں
جہاں جاتا ہوں اپنے دل کا موسم ڈھونڈ لیتا ہوں

اکیلا خود کو جب محسوس کرتا ہوں کسی لمحے
کسی امید کا چہرہ کوئی غم ڈھونڈ لیتا ہوں

بہت ہنسی نظر آتی ہیں جو آنکھیں سر محفل
میں ان آنکھوں کے پیچھے چشم پرنم ڈھونڈ لیتا ہوں

گلے لگ کر کسی کے چاہتا ہوں جب کبھی رونا
شکستہ اپنے جیسا کوئی ہمدم ڈھونڈ لیتا ہوں

کیلنڈر سے نہیں مشروط میرے رات دن ساجد
میں جیسا چاہتا ہوں ویسا موسم ڈھونڈ لیتا ہوں