Wednesday, June 22, 2011

عبید اللہ علیم : غم کا علاج، دُکھ کا مداوا کرے کوئی

غم کا علاج، دُکھ کا مداوا کرے کوئی
جب خواب ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی

سو سلسلے خیال کے، سو رنگ خواب کے
کچھ سوچ کر کسی کی تمنّا کرے کوئی

بُجھتی نہیں ہے پیاس کہ جانے کہاں کی ہے
پیاسی زمیں پہ ابر سا برسا کرے کوئی

آؤں جو ہوش میں تو مئے بے خودی وہ دے
گرنے لگوں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی

یارانِ جان و دل کو کوئی جمع پھر کرے
جو بھی ہو جس کا حال، سنایا کرے کوئی

جب دل کو اشک و آہ کے ساماں نہ ہوں بہَم
اس بے کسی میں یاد نہ آیا کرے کوئی

کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر
دیتے ہیں پھر دُہائی کہ سایہ کرے کوئی

جو تِیرہ بخت ہے نہیں کھُلتی ہے اُس کی آنکھ
لاکھ آسماں سے روشنی لایا کرے کوئی

اس آدمی کے آپ مسیحا نہ ہوں اگر
کس میں ہے دم کہ اب اسے زندہ کرے کوئی

"ہے امن اس مکانِ محبت سرائے میں"
جب چاہے آئے شوق سے آیا کرے کوئی

وہ ہے طلسمِ خوابِ نظارہ کہ ایک بار
دیکھے اُسے تو بس اُسے دیکھا کرے کوئی

کر کے سپرد اک نگہۂِ ناز کو حیات
دنیا کو دین، دین کو دنیا کرے کوئی

چمکیں گے آسمانِ محبت پہ خود علیم
لفظوں کے ٹھیکروں کو ستارا کرے کوئی

1 تبصرے:

Unknown نے لکھا ہے کہ

سبحان اللہ سبحان اللہ
محترم جناب عبید اللہ علیم صاحب کی شاہکار غزلوں میں سے ایک غزل ہے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔