Sunday, June 12, 2011

اعتبار ساجد : مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں

مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں
مرے شعر ، میری صداقتیں ، مری دھڑکنیں ، مری چاہتیں

تجھے جذب کرلوں لہو میں میں کہ فراق کا نہ رہے خطر
تری دھڑکنوں میں اتار دوں میں یہ خواب خواب رفاقتیں

یہ ردائے جاں تجھے سونپ دوں کہ نہ دھوپ تجھ کو کڑی لگے
تجھے دکھ نہ دیں مرے جیتے جی سرِ دشت غم کی تمازتیں

مری صبح تیری صدا سے ہو ، مری شام تیری ضیا سے ہو
یہی طرز پرسشِ دل رکھیں تری خوشبوں کی سفارتیں

کوئی ایسی بزم بہار ہو میں جہاں یقین دلا سکوں
کہ ترا ہی نام ہے فصلِ گل ، کہ تجھی سے ہیں یہ کرامتیں

ترا قرض ہیں مرے روز و شب ، مرے پاس اپنا تو کچھ نہیں
مری روح ، میری متاعِ فن ، مرے سانس تیری امانتیں

فیض احمد فیض : بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرتے دیتے

بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرتے دیتے
اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے

دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ
اور ہمیں چاکِ گریباں نہیں کرنے دیتے

ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ھے
اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے

دل میں وہ آگ فروزاں ھے عدو جس کا بیاں
کوئی مضموں کسی عنواں نہیں کرنے دیتے

جان باقی ھے تو کرنے کو بہت باقی ھے
اب وہ جو کچھ کہ مری جاں نہیں کرنے دیتے

عبید اللہ علیم : ہنسو تو رنگ ھوں چہرے کا، روؤ تو چشمِ نم میں ھوں

ہنسو تو رنگ ھوں چہرے کا، روؤ تو چشمِ نم میں ھوں
تم مجھ کو محسوس کرو تو ھر موسم میں ھوں

چاھا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ھیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں‌ ھوں‌

لوگ محبت کرنے والے دیکھیں‌ گے تصویر اپنی
ایک شعاعِ آوارہ ھوں آئینئہ شبنم میں ھوں

اُس لمحے تو گردش خوں‌ نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمین اٹھائے اک رقصِ پیہم میں ھوں

یار مرا زنجیریں‌ پہنے آیا ھے بازاروں میں‌
میں‌کی تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں‌ ھوں‌

جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں‌ آنکھوں زندہ ھیں‌
جواب تک نہیں‌ لکھ پایا میں ، آن خوابوں‌کے گم میں‌ ھوں

عبید اللہ علیم : تیرے پیار میں رُسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ

تیرے پیار میں رُسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ

ہر لمحہ احساس کی صہبا رُوح میں ڈھلتی جاتی ہے
زیست کا نشّہ کچھ کم ہو تو ہو آئیں میخانے لوگ

جیسے تمہیں ہم نے چاہا ہے کون بھلا یوں چاہے گا
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ

یُوں گلیوں بازاروں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں
جیسے اس دنیا میں سبھی آئے ہوں عمر گنوانے لوگ

آگے پیچھے دائیں بائیں سائے سے لہراتے ہیں
دنیا بھی تو دشتِ بلا ہے ہم ہی نہیں دیوانے لوگ

کیسے دکھوں کے موسم آئے کیسی آگ لگی یارو
اب صحراؤں سے لاتے ہیں پھولوں کے نذرانے لوگ

کل ماتم بے قیمت ہوگا آج ان کی توقیر کرو
دیکھو خونِ جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ

مظفر منصور : جب وہ چلمن کو بڑھا ديتا ہے

جب وہ چلمن کو بڑھا ديتا ہے
نُطق تب ازنِ نوا ديتا ہے

ابّر دريا پہ اگر برسے تو
دشت ميں آگ لگا ديتا ہے

آئينہ ہو کے وہ منظر ميرا
سامنے ميرے سجا ديتا ہے

ميری تقدير بدل جاتی ہے
جب مرا پير دعا ديتا ہے

وہ جو اک روذِ جزّا سنتے ہيں
کيا وہ بچھژوں کو ملا ديتا ہے

اتنا وہ خوابِ طرّب ہے معلوم
نيند سے کوئ جگا ديتا ہے

احمد فراز : اب کے تجدیدِوفا کا نہیں اِمکاں جاناں

اب کے تجدیدِوفا کا نہیں اِمکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
بِن پیۓ ہی تیرا چہرا تھا گُلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم تھا کہ اب یاد نہیں
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

ہم کہ رُوٹھی ہوئی رُت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسمِ ہِجراں جاناں

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کِس قدر جلد بدل جاتے ہیں اِنساں جاناں

دل سمجھتا تھا کہ شاید ہو فسُردہ تُو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

مدّتوں سے یہی عالم نہ توقع، نہ اُمید
دل پُکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسی بھی گزاری تیرا احساں جاناں

اب تیرا نام بھی شاید ہی غزل میں آۓ
اور سے اور ہوۓ درد کے عُنواں جاناں

عبید اللہ علیم : اپنا احوال سنا کر لے جائے

اپنا احوال سنا کر لے جائے
جب مجھے چاہے منا کر لے جائے

میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو
میری تنہائی اٹھا کر لے جائے

وہ مجھے بھول گیا ہے شاید
یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے

ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں
خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے

خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو
جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے

در خزانے کا کہیں بند نہیں
یہ خزانہ کوئی آ کر لے جائے

دھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا
اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے

تجھ کو بھی کوچہ عشاقاں میں
اپنے مولا سے دعا کر، لے جائے

کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے

اک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے
ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے

کون محبوب ہوا ہے ایسا
اپنے عاشق کو بُلا کر لے جائے

پھر سے آ جائے کوئی چپکے سے
کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے

اس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں
جو مرے دل کو دکھا کر لے جائے

کوئی عیسیٰ مرے معبود کہ جو
تیرے مردوں کو جِلا کر لے جائے

ایسی دیوانگی و حیرانی
آئینہ کوئی دکھا کر لے جائے

سامنے سب کے پڑی ہے دنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے

ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے

ہو سخنور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرا کر لے جائے

ساغر صدیقی : کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہُوا

کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہُوا
اشک بھی حرفِ مُدّعا نہ ہُوا

تلخی درد ہی مقدّر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہُوا

ماہتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہُوا

آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا

وہ شہنشہ نہیں، بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہُوا

رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہُوا

ڈوبنے کا خیال تھا ساغرؔ
ہائے ساحل پہ ناخُدا نہ ہُوا

مظفر منصور : کہیں رُوپ رُوپ دیئے بُجھے کہیں زُلف سایہ بچھا لیا

کہیں رُوپ رُوپ دیئے بُجھے کہیں زُلف سایہ بچھا لیا
بڑی تِیرگی تھی ترے نگر سو میں اپنا گھر ہی جلا لیا

مرے حرف حرف تھے آیئنے کہ جو عکس آیا ٹھہر گیا
مری چشمِ خواب کے معجزے اُسے رتجگوں میں جگا لیا

مری زندگی بھی عجیب تھی، مری موت مجھ سے قریب تھی
مرے چارہ گر بڑی دُور تھے سو میں اپنا لاشہ اُٹھا لیا

کبھی مے و مینا میں گُم رہا کبھی ذات نشّے میں خُم رہا
مری عمرِ ہجر طویل تھی اسے جاگتے میں سُلا لیا

یہی بام و در کبھی خواب تھے یہی بام و در کہ عذاب ہیں
وہ جو میرے گھر میں بسا نہیں اسے چشمِ تر میں بسا لیا

تری کائناتوں کے درمیاں کئی روپ رنگ تھے ضَو فشاں
جسے چاہا خود سے جدا کیا جسے چاہا خود میں ملا لیا

کوئی لب ہلے تو دیئے جلے جو نویدِ صبحِ وصال تھے
کو ئی نور جی میں بکھر گیا کسی تِیرگی کو بجھا لیا

کوئی لامکانی طلسم تھا جو سبھی زمانوں کا اِسم تھا
وہ ہر ایک شے پہ جو بار تھا مرے عشق نے وہ اُٹھا لیا

مرے ہم نفَس مری زندگی ترے بن تو جاں سے گزر چلی
کبھی یوں لگے کہ جُدا ہے تُو کبھی یوں لگے تجھے پا لیا

عبد الحمید عدم : اس کی پائل اگر چھنک جائے

اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹھک جائے

اس کے ہنسنے کی کیفیت ، توبہ!
جیسے بجلی چمک چمک جائے

اس کے سینے کا زیرو بم ، توبہ!
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے

لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر اٹک جائے

ایسے بھر پور ہے بدن اس کا
جیسے ساون کا آم پک جائے

ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے

عبدالحمید عدم : وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

پروین شاکر : دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا

دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا
مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا

اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو
کچھ تو لازم ہُوا وحشت کرنا

جُرم کس کا تھا سزا کِس کو مِلی
کیا گئی بات پہ حُجت کرنا

کون چاہے گا تمھیں میری طرح
اب کِسی سے نہ محبت کرنا

گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مِل جائے تو زحمت کرنا

عبید اللہ علیم : میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں

میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غنچہ ہو کہ گُل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گُلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطّہء زمیں پر
وہی خطہء زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہَوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس ِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں

مظفر منصور : آئینے کی بزم تھی اک آئینہ تھا سامنے

آئینے کی بزم تھی اک آئینہ تھا سامنے
آشنا بیٹھا تھا کوئی آشنا تھا سامنے

کیسا نظارہ کہ ہوشِ دید ہی جاتا رہا
وہ قیامت حسن وہ قامت حیا تھا سامنے

ہوش ہوتے بھی تو کیا الفاظ میں ڈھلتا وہ شوخ
جانیئے کیا کیا نہاں تھا جانے کیا تھا سامنے

مانگنا آتا نہیں ورنہ اسی کو مانگتا
میں رہا خاموش سر تاپا دعا تھا سامنے

میری آنکھوں میں نہیں تھا جلوہ گر چہرہ تیرا
اک حیاء پیکر کا چہرہ آ گیا تھا سامنے

میں اک اپنی دھن میں تیری بزم کی رونق رہا
جانیئے کیا ناروا تھا کیا روا تھا سامنے

ہجر کی بارش میں جلتا تھا مرے دل کا نگر
سائباں میں بھیگتا وہ بھی کھڑا تھا سامنے

اک فسوں کے گھیر میں سب سے جدا رہتا ہے وہ
بھیڑ تھی عالم کی لیکن وہ جدا تھا سامنے

اپنی اپنی روشنی تھی اپنا اپنا تھا سفر
اک دیا تھا دل مرا اور اک دیا تھا سامنے

وہ جہاں جبریل بھی لا چار تھا اس اوج پر
اک محمد مصطفٰی تھا اک خدا تھا سامنے

اعتبار ساجد : ہم بھی شکستہ دل ہیں، پریشان تم بھی ہو

ہم بھی شکستہ دل ہیں، پریشان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ میری جان تم بھی ہو

ہم بھی ہیں ایک اجڑے ہوئے شہر کی طرح
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ ویران تم بھی ہو

درپیش ہے ہمیں بھی کڑی دھوپ کا سفر
سائے کی آرزو میں پریشان تم بھی ہو

ہم بھی خزاں کی شام کا آنگن ہیں، بے چراغ
بیلیں ہیں جس کی زرد وہ دالان تم بھی ہو

جیسے کسی خیال کا سایہ ہیں دو وجود
ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو

مل جائیں ہم تو کیسا سہانا سفر کٹے
گھائل ہیں ہم بھی، سوختہ سامان تم بھی ہو

نوشی گیلانی : عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے

عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے
ہجر کی پُوری رات آتی ہے صبحِ وصال سے پہلے

دِل کا کیا ہے دِل نے کتنے منظر دیکھے لیکن
...آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے

کس نے ریت اُڑتی شب میں آنکھوں کھول کے رکھیں
کوئی مثال تو دیناں اس کی مثال سے پہلے

کارِ محبت ایک سفر ہے اِس میں آ جاتا ہے
ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے

عشق میں ریشم جیسے وعدوں اور خوابوں کا رستہ
جتنا ممکن ہو طے کر لیں گر دِ ملال سے پہلے

نوشی گیلانی : اب بھی شاعر رہوں

اب بھی شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں
کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے ہُوئے
آنسوؤں میں چھُپے درد چُنتا پھرے
خواب بُنتا پھرے
...کون ہے جو مِرے خُون ہوتے ہُوئے دل کی آواز پر
اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پھرے
کون آنکھیں مِری دیکھ کر یہ کہے
’’کیا ہُوا جانِ جاں
کب سے سوئی نہیں
اس سے پہلے تو تم اِتنا روئی نہیں
اَب بھلا کِس لیے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں
اپنی حالت پہ خُود اتنی حیران ہیں ‘‘
کون بے چین ہو
کون بے تاب ہو

موسمِ ہجر ک شامِ تنہائی میں
آبلہ پائی میں
کون ہو ہم سفر ، گرد ہے رہگزر
کوئی رستہ نہیں کوئی راہی نہیں
در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں
دل کے ویران و برباد صفحات پر
جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں
ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں
سوچتی ہوں کہ اَب
ان خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں
کیوں میں شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں

اعتبار ساجد : ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے

ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
کوئی یوسف تھے کہ بازار میسر آتے
 
کیسا ہرجائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
 
اس گلی میں ابھی تِل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دو چار میسر آتے
 
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
 
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
 
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دِیا کام آیا
نہ یہ جلتا، نہ یہ اشعار میسر آتے

مظفر منصور : ننگِ بدّن تھا مجھکو گلے ميں جو ہار تھا

ننگِ بدّن تھا مجھکو گلے ميں جو ہار تھا
حائيل مجھے جنوں ميں گريباں کا تار تھا

ہم ايک راستے کے مسافر رہے مگر
ميرا تجھے تھا اپنا مجھے انتظار تھا

کھلتے بکھر گيا ہے ندائے بہار سے
گويا وہ گُل نہيں تھا دلِ بے قرار تھا

نسياں کے طاق پر بھی نہيں آج ھائے حيف
وحشت ميں اک خيال جو وجہہِ قرار تھا

مقتول ہوں ميں اسکی ادائے حجاب کا
کيونکر کہوں جو گفتہِ گفتارِ يار تھا

تھی تيرے ساتھ آب و ہوائے نشاطِ جاں
خواب و خيال و روح و بدّن ہمکنار تھا

رنجِ سفر کسی کے تصّور ميں کٹ گيا
ورنہ جو گُل تھا رہ ميں وہی موئے خار تھا

احمد فراز : ہجر جاناں کی گھڑی اچھی لگی

ہجر جاناں کی گھڑی اچھی لگی
اب کے تنہائ بڑی اچھی لگی

قریہ جان پہ اداشی کی طرح
دھند کی چادر بری لگی لگی

ایک تنہا فاختہ اڑتی ہوی
ایک ہرن کی چوکڑی اچھی لگی

زندگی کی گھپ اندھیری رات میں
یاد کی ایک پھلجھڑی اچھی لگی

شہر دل اور اتنے لوگوں کا ہجوم
وہ الگ سب سے کھڑی اچھی لگی

ایک شہزادی مگر دل کی فقیر
اسکو میری جھونپڑی اچھی لگی

دل میں آ بیٹھی غزل سی وہ غزال
یہ تصور کی گھڑی اچھی لگی

تیرا دکھ اپنی وفا کار جہاں
جو بھی شہ مہنگی پڑی اچھی لگی

آنکہ بھی برسی بہت بادل کے ساتھ
اب کے ساون کی جھری اچھی لگی

یہ غزل مجھ کو پسند ائی فراز
یہ غزل اسکو بڑی اچھی لگی

ظفر اقبال : یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا

یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

چمکتے چاند بھی تھے شہرِ شب کے ایواں میں
نگارِ غم سا مگر کوئی شمع رو نہ ملا

انہی کی رمز چلی ہے گلی گلی میں‌یہاں
جنہیں اِدھر سے کبھی اذنِ گفتگو نہ ملا

پھر آج میکدہ دل سے لوٹ آئے ہیں
پھر آج ہم کو ٹھکانے کا ہم سبو نہ ملا

سعد اللہ شاہ : ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیں‌ظالم کی پشیمانی کو

کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو

شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو

تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو

دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو

ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو

جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو

صوفی تبسم : یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو

احمد فراز : جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا

جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
آج کیا جانیے کیا یاد آیا

...پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
پھر ترا عہد وفا یاد آیا

جس طرح دھند میں‌لپٹے ہوئے پھول
ایک اک نقش ترا یاد آیا

ایسی مجبوری کے عالم میں‌ کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا

اے رفیقو سر منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا

یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں‌ یاد کہ کیا یاد آیا

جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی بھول گیا یاد آیا

یہ محبت بھی ہے کیا روگ فراز
جس کو بھولے وہ سدا یاد آیا

عبید اللہ علیم : خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
...
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھینچی ہوئی ہیں پس جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گیے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دے دی
میں سنگ راہ ہوں مجھ پر یہ عنایتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

نہ صاحبانِ جنوں ہیں نہ اہل کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ہے وہ اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

قتیل شفائی : تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ، ایسے تو حالات نہیں

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ، ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ھے ، اور تو کوئی بات نہیں

کس کو خبر تھی سانولے بادل ِبن برسے اڑ جاتے ھیں
ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں

ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رھی ھے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں

غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں
ُتو پر ُتو ھے، میرا تو سایا بھی میرے ساتھ نہیں

مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ھے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں

ختم ھوا میرا افسانہ اب یہ آنسو پونچھ بھی لو
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں

میرے غمگیں ھونے پر احباب ھیں یوں حیراں قتیل
جیسے میں پتھر ھوں ، میرے سینے میں جذبات نہیں