Monday, April 18, 2011

فرزانہ نیناں : پگلی


سپنےبنتےنیناں پر
ہونٹ جب اپنےرکھ دوگے
دھیرےدھیرےسرگوشی میں، کانوں سے،کچھ کہدوگے
اور میں۔۔۔آنکھیں موندےموندے
کروٹ اپنی بد لوں گی
گہری نیند کی شوخ ادا کو، چپکےچپکے، کھولوں گی
آنچل میں چہرےکو چھپا کر، کَن اَکھیوں سےدیکھوں گی
چاند کی چوڑی سےکرنیں،چھن چھن،چھن چھن ،ٹوٹیں گی
جھیل سی ٹھہری دھڑکن اُس دَم
دھک دھک ،دھک دھک بولےگی
اور تم بھی، دھیرےسےہنس کر
مجھ کو کہدوگے
پگلی۔۔۔!!!

سیدانجم کاظمی : اپنے ہاتھوں سے خود اپنے درد کا درماں لکھا


اپنے ہاتھوں سے خود اپنے درد کا درماں لکھا
دل کے کاغذ پر دُعاؤں کے برابر ماں لکھا

فرطِ غم سے دل کی دھڑکن جب بھی بےقابو ہوئی
لوحِ جاں پر زندگی نے مسکرا کر ماں لکھا

میں سراپا روشنی کا ایک حسیں مینا رہوں
دل کے اندر ماں* لکھا دل باہر ماں لکھا

حافظے کو مسئلہ درپیش تھا تجدید کا
ذہن کی دیوار پر میں نے مکرر ماں لکھا

دھوپ موسم مرا چہرا وہ آنچل کی ہوا
زندگی بھر میری آنکھوں نے یہ منظر ماں لکھا

میرا دامن بھر گیا ہے گوہرِ نایاب سے
جب بھی میں نے تجھ کو اے گہرے سمندر ماں لکھا

لکھ رہی تھی چاندنی جب ریت کے ذرات پر
چشمِ شبنم نے بھی پھولوں پہ اُتر کر ماں* لکھا

اُسی کے نام سے تھی ابتدائے خوش خطی
لفظ جتنے میں*نے لکھے سب سے بہتر ماں لکھا

عرش سے بھیجی تھی رب نے پہلی ماں جو فرش پر
نورِ ممتا اُس سے پھیلا جس نے گھر گھر ماں لکھا

اپنی ماں سے تیرا قد مجھ کو بہت چھوٹا لگا
تجھ پہ آکر میں نے جب چاہت کے ممبر ماں لکھا

میں نے انجم اپنا پیکر یوں منور کر لیا
صبح دم سے چاندنی تک بس سراسر ماں لکھا

عائشہ انمول : اُس کے لگتے ہیں یہ انداز نرالے مجھ کو

اُس کے لگتے ہیں یہ انداز نرالے مجھ کو
خود ہی ناراض کرے، خود ہی منالے مجھ کو

یاد ہیں اب بھی محبت کے حوالے مجھ کو
کاش آواز تو دے، کاش بُلا لے مجھ کو

اپنی دلہن کے حسیں روپ میں ڈھالے مجھ کو
ساری دنیا کی نگاہوں سے چُھپا لے مجھ کو

اک حسیں خواب ہوں، آنکھوں میں سجا لے مجھ کو
اپنے ہر خواب کی تعبیر بنا لے مجھ کو

میں تو خوشبو کی طرح تجھ میں بسی ہوں جاناں!
کہیں کرنا نہ ہواؤں کے حوالے مجھ کو

اُس کی چاہت میں عجب حال ہوا جاتا ہے
اُس سے کہیے کہ ذرا آکے سنبھالے مجھ کو

میں کہ دھڑکن کی طرح دل میں* بسی ہوں اُس کے
میرے گھر سے وہ بھلا کیسے نکالے مجھ کو

اب تو انمول وہی ہے مری آنکھوں کی ضیا
وہ جو آئے تو نظر آئیں اُجالے مجھ کو

جلیل قدوائی : دُور اس دنیا سے ہو کوئی جہاں میرے لئے


دُور اس دنیا سے ہو کوئی جہاں میرے لئے
اس جہاں میں تو نہیں امن و اماں میرے لئے!

اک جہاں جس میں نہ ہو فکر و تردّد کا ہجوم
اک جہاں جس میں نہ ہو شو رو فغاں میرے لئے

اک جہاں جس میں نہ ہو کچھ ما و تُو کا امتیاز
اک جہاں آزادِ قیدِ این و آں میرے لئے

اک جہاں جس میں نہ ہو علم و خرد کی دار و گیر
ہو نہ جس میں کاوشِ سودوزیاں میرے لئے

اک جہاں جس میں نہ ہو بغض و عداوت کا وجود
اور محبت ہی محبت ہو جہاں میرے لئے

اک جہاں جس میں مجھے امن و فراغت ہو نصیب
زندگی جس میں نہ بارِ گراں میرے لئے

اک جہاں جس میں مرا قول و عمل ہو معتبر
ہر قدم پر ہوں نہ جس میں امتحاں میرے لئے

بے ریائی ہو جہاں کے رہنے والوں کا شعار
اور محبت میں صداقت ہو جہاں میرے لئے

ظاہر و باطن جہاں کے بسنے والوں کا ہو ایک
ہوں نہ خنجر آستینوں میں نہاں میرے لئے

زندگانی ہو جہاں اک خواب شیریں کے مثال
ہر نفس جس کا ہو عمرِ جاوداں میرے لئے

جس کا ہر ذرہ ہو اک دنیا ئے ناپیدا کنار
جس کا ہر قطرہ ہو بحرِ بے کراں میرے لئے

دُور اس دنیا سے ہو ایسا جہاں میرے لئے
اس جہاں میں تو نہیں امن و اماں میرے لئے

احمد ندیم قاسمی : جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں


جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں
ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں

ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں

پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی
پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں

پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ
آؤ تو یہ اُجڑی ہوئی محفل بھی سجائیں

پھر لوٹ کے آئیں گے یہیں قافلے والے
اُٹھتی ہیں اُفق سے کئی غمناک صدائیں

شاید یہی* شعلہ مری ہستی کو جلا دے
دیتا ہوں میں اڑتے ہوئے جگنو کو ہوائیں

اے کاش ترا پاس نہ ہوتا مرے دل کو
اٹھتی ہیں پر رک جاتی ہیں سینے میں* صدائیں

اک آگ سی بھر دیتا ہے رگ رگ میں تبسّم
اس لطف سے اچھی ہیں حسینوں کی جفائیں

معبود ہو اُن کے ہی تصّور کی تجلّی
اے تشنہ لبو آؤ!* نیا دَیر بنائیں

ہم سنگِ دریا پہ بے ہوش پڑے ہیں
کہہ دے کوئی جبریل سے، بہتر ہے، نہ آئیں

ہاں، یاد تو ہوگا تمہیں راوی کا کنارا
چاہو تو یہ ٹوٹا ہوا بربط بھی بجائیں

توبہ کو ندیم آج تو قربان کرو گے
جینے نہیں دیتیں مجھے ساون کی گھٹائیں

اختر شیرانی : سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں آتا


سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں آتا
تڑپتا ہوں مگر اَوروں کو تڑپانا نہیں آتا

مرے اشعار مثلِ آئینہ شفاف ہوتے ہیں
مجھے مفہوم کو لفظوں میں اُلجھانا نہیں آتا

میں اپنی مشکلوں کو دعوتِ پیکار دیتا ہوں
مجھے یُوں عاجزی کے ساتھ غم کھانا نہیں آتا

میں ناکامِ مسّرت ہوں مگر ہنستا ہی رہتا ہوں
کروں کیا مجھ کو قبل از موت مر جانا نہیں آتا

یہ میری زیست خود اک مستقل طوفان ہے اختر
مجھے اِن غم کے طوفانوں سے گھبرانا نہیں آتا

بہزاد لکھنوی : میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی

میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی
آنکھ میں* آنکھ ڈال کر بندہ بنا گیا کوئی

مرگ و حیات کے مزے آہ دکھا گیا کوئی
آکے ہنسا گیا کوئی جاکے رلا گیا کوئی

سجدہء عشق کے لئے پائے صنم ضرور ہے
میری جبینِ شوق کو راز بتا گیا کوئی

مرے تصورات کا سحر عجیب سحر ہے
دیکھ مرے دل حزیں دیکھ وہ آگیا کوئی

سب کی طرف لطف بزم میں تھی رواں دواں
ایک نظر میں بے کہے سب کو مٹا گیا کوئی

فظرت عشق کے نثار اس کو مرا خیال تھا
صدقے غرورِ حسن کے مجھ سے چھپا گیا کوئی

محمد یوسف جمال : یہ اُلفت کی باتیں، محبت کی گھاتیں، جوانی کی راتیں، نہ پھر پاؤ گے

یہ اُلفت کی باتیں، محبت کی گھاتیں، جوانی کی راتیں، نہ پھر پاؤ گے
مِرے ساتھ اگر دادِ عشرت نہ دو گے، یہ دن یاد کر کر کے پچھتاؤ گے

حسینوں کی سُن کر وفاداریاں ہوگے بیحد خجل، دل میں شرماؤ گے
تم اپنا شباب اور میری مُحبّت، بہت یاد کر کر کے پچھتاؤ گے

مِرا تذکرہ بھی سنو گے کسی سے، تو آنکھوں میں تم اشک بھر لاؤ گے
مِرا نام لے لے کے کوسو گے خود کو، مجھے یاد کر کر کے پچھتاؤ گے

یہ حُسن و جوانی نہ قائم رہے گی، کبھی آئنہ دیکھ اگر پاؤ گے
تو حُسن و جوانی پہ چاہت سے نفرت، بہت یاد کر کر کے پچھتاؤ گے

جوانی کا مِینائے سربند خود جوشِ مستی سے، اک روز کُھل جائے گا
مئے حُسن مل جائے گی خاک میں، پینے والا میّسر نہیں* آئے گا

جوانی کا تم لاکھ ماتم کرو گے، مگر صبر پھر بھی نہیں آئے گا
محبّت کو ہر چند ڈھونڈو گے، اہلِ محبت نہ تم کو کوئی پائے گا

وفادار تم کاش ہوتے، یہ حسرت سدا کے لئے دل میں رہ جائے گی
تمنّا، کہ ہوتی تمہیں مجھ سے اُلفت، سدا کے لئے دل میں رہ جائے گی

شاہدہ حسن : مِرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

مِرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
جو خواب زندہ ہے مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نہ جانے کیوں اِضطرار سا ہے، ہر اک پل بے قرار سا ہے
یہ خوف دل میں اُتر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

عجب سی ساعت ہے آج سر پر، کہ آنچ آئی ہوئی ہے گھر پر
دُعا کہیں بے اثر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

یہ سجدہ گاہیں یہ فرش و منبر، جو ہیں ہمارے ہی خون سے تر
لہو کی یہ رُت ٹھہر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

یہ کن دُکھوں میں سلگ رہے ہیں، دماغ بارود لگ رہے ہیں
رَگوں میں یہ زہر بھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رُتوں کے تیور نہیں ہیں اچھے، بدل چکے دوستوں کے لہجے
یہ سیلِ نفرت بپھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نشانِ منزل تو ہے فروزاں مگر ہم ایسے مسافروں کی
کہیں اُسی پر نظر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رفاقتوں کا خیال رکھنا، دِلوں کو پیہم سنبھال رکھنا
بچھڑ کوئی ہم سفر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

سدا مُقدّم ہے تیری حُرمت، مِرے وطن تو رہے سلامت
وفا کا احساس مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

جگر مراد آبادی : ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں



ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
بس اک دل کی خاطر یہ تیاریاں ہیں

چمن سوز، گلشن کی گلکاریاں ہیں
یہ کس سوختہ دل کی چنگاریاں ہیں

نہ بے ہوشیاں اب، نہ ہشیاریاں ہیں
محبت کی تنہا فسوں کاریاں ہیں

نہ وہ مستیاں ہیں، نہ سرشاریاں ہیں
خودی کا ہی احساس خودداریاں ہیں

محبت اثر کرتی ہے چپکے چپکے
محبت کی خاموش چنگاریاں ہیں

نگاہ تجسس نے دیکھا جہاں تک
پرستاریاں ہی پرستاریاں ہیں

تجلی سے کہدو ذرا ہاتھ روکے
بہت عام اب دل کی بیماریاں ہیں

نہ آزاد دل ہیں، نہ بے قید نظریں
گرفتاریاں ہی گرفتاریاں ہیں

نہ ذوق تخیل، نہ ذوق تماشا
محبت ہے اب اور بے زاریاں ہیں

تغافل ہے اک شان محبوب لیکن
تغافل میں پنہاں خبرداریاں ہیں

کہاں میں، کہاں تازہ اشعارِ رنگیں
تری اک توجہ کی گلکاریاں ہیں

ازل سے ہے صرفِ دُعا ذرہ ذرہ
خدا جانے کیا کچھ طلبگاریاں ہیں

بچھے جارہے ہیں سب ہی دیدہء و دل
تری آمد آمد کی تیاریاں ہیں

قدم ڈگمگائے، نظر بہکی بہکی
جوانی کا عالم ہے، سرشاریاں ہیں

جگر ، زندگی لطف سے کٹ رہی ہے
غم آزاریاں ہیں ، جنوں کاریاں ہیں

کہاں پھر یہ ہستی، کہاں ایسی ہستی
جگر کی جگر تک ہی میخواریاں ہیں

سراج اونگ آبادی دکنی : خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی


واصف علی واصف : بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر

بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر
شیرازہ ملت ہوں ، بکھر جاتا ہوں اکثر

میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر
طوفان کے سینے میں اُتر جاتا ہوں اکثر

میں موت کو پاتا ہوں کبھی زیرِ کفِ پا
ہستی کے گماں سے بھی گزر جاتا ہوں اکثر

مرنے کی گھڑی آئے تو میں زیست کا طالب
جینے کا تقاضا ہو تو مر جاتا ہوں اکثر

رہتا ہوں اکیلا میں بھری دنیا میں واصف
لے نام مرا کوئی تو ڈر جاتا ہوں اکثر


انور مسعود : کب ضیاء بار ترا چہرہ ِ زیباہوگا

کب ضیاء بار ترا چہرہ ِ زیباہوگا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اُجالا ہوگا

مشغلہ اُس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا

جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبعیت اُس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اُس کو منانا ہوگ
ا
اِس طرف شہر اُدھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا

یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہوگا

آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انور
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے یدِ بیضا ہوگا

انور مسعود : میں جُرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا

میں جُرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اُسے کہیے جو دُہائی نہیں دیتا

کہتاہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاو
میں ورنہ تمہیں اِذنِ رہائی نہیں دیتا

چَرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اوردستِ ستمگر بھی دکھائی نہیں دیتا

آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیاء بھی
سب کچھ ہے مگر ہاتھ سجھائی نہیں دیتا

اب اپنی زمیں چاند کی مانند ہے انور
بولیں توکسی کو بھی سنائی نہیں دیتا

انور مسعود : رات آئی ہے بلاوں سے رہائی دے گی

رات آئی ہے بلاوں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی

یہ دُھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی

دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ تماشا ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی

ساتھ کے گھر میں بڑا شور بپا ہے انور
کوئی آئے گاتو دستک نہ سنائی دے گی

احمد فراز : وار فتگی میں دل کا چلن انتہا کا تھا

وار فتگی میں دل کا چلن انتہا کا تھا
اب بت پرست ہے جو نہ قائل خدا کا تھا

مجھ کو خود اپنے آپ سے شرمندگی ہوئی
وہ اس طرح کہ تجھ پہ بھروسا بلا کا تھا

وار اس قدر شدید کہ دشمن ہی کر سکے
چہرہ مگر ضرور کسی آشنا کاتھا

اب یہ کہ اپنی کشتِ تمناکو روئیے
اب اس سے کیا گلا کہ وہ بادل ہوا کا تھا

تونے بچھڑ کے اپنے سر الزام لےلیا
ورنہ فراز کا تو یہ رونا صدا کا تھا

عبيد اللہ عليم : دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا

دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا
تم بھی تو بے اماں ہوئے ہم کو ستا لیا تو کیا

آپ کے گھر میں ہر طرف منظر ماہ و آفتاب
ایک چراغ شام اگر میں نے جلا لیا تو کیا

باغ کا باغ آپ کی دسترسِ ہوس میں ھے
ایک غریب نے اگر پھول اٹھا لیا تو کیا

لطف یہ ھے کہ*آدمی عام کرے بہار کو
موج ہوائے رنگ میں*آپ نہا لیا تو کیا

اب کہیں بولتا نہیں*غیب جو کھولتا نہیں
ایسا اگر کوئی خدا تم نے بنا لیا تو کیا

جو ھے خدا کا آدمی اس کی ھے سلطنت الگ
ظلم نے ظلم سے اگر ہاتھ ملا لیا تو کیا

آج کی ھے جو کربلا کل پہ ھے اس کا فیصلہ
آج ہی* آپ نے اگر جشن منا لیا تو کیا

لوگ دکھے ہوئے تمام رنگ بجھے ہوئے تمام
ایسے میں اہل شام نے شہر سجا لیا تو کیا

پڑھتا نہیں ھے اب کوئی سنتا نہیں ھے اب کوئی
حرف جگا لیا تو کیا شعر سنا لیا تو کیا


عبيد اللہ عليم : جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے

جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے

ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے

وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے

کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے

ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے

ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے

یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے

کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیمؔ
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے


عبید اللہ علیم : ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ

ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ
میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ

روشنی آدھی اِدھر، آدھی اُدھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ

میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانے تھے نظاروں کے بیچ

ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ

کھا گیا انساں کو آشوبِ معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ

میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ

اپنی ویرانی کے گوہر رولتا
رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ

کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ

اہلِ دل کے درمیاں تھے میرؔ تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ

آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ
اک محمد مصطفےٰ ساروں کے بیچ



عبید اللہ علیم : شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے

شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے
یہ شہر دل سے زیادہ دُکھا سا لگتا ہے

ہر ایک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے
جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہُوا سا لگتا ہے

زمیں ہے سو وہ اپنی ہی گردشوں میں کہیں
جو چاند ہے سو وہ ٹُوٹا ہُوا سا لگتا ہے

مرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو
جو تم کہو، مجھے قہرِ خدا سا لگتا ہے

جو شام آئی تو پھر شام کا لگا دربار
جو دن ہُوا تو وہ دن کربلا سا لگتا ہے

یہ رات کھا گئی ایک ایک کر کے سارے چراغ
جو رہ گیا ہے وہ بجھتا ہُوا سا لگتا ہے

دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے

تو دل میں بُجھنے سی لگتی ہے کائنات تمام
کبھی کبھی جو مجھے تُو بُجھا سا لگتا ہے

جو آ رہی ہے صدا غور سے سُنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے

ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے
مگر ضمیر کا سودا بُرا سا لگتا ہے

یہ موت ہے کہ کوئی آخری وصال کے بعد
عجب سکون میں سویا ہُوا سا لگتا ہے

ہوائے رنگِ دو عالم میں جاگتی ہوئی لَے
علیم ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ہے



عبید اللہ علیم : کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں

کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا

تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا


الطاف حسیں حالی : ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹہرتی ہے دیکھے جا کر نظر کہاں

یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اسکو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

ایک عمر چاہے کہ گوارہ ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں

ہم جس پے مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لکھ سہی تو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زبان میں اثر کہاں

حالی نشت نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
اے ہو وقت صبح، رہے رات بھر کہاں



نظام رامپوری : آنگڑائی بھی وہ لینے نہ پاے اٹھا کے ہاتھ

آنگڑائی بھی وہ لینے نہ پاے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دے مسکرا کے ہاتھ

یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگایں غیر
اور اسکی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ

قاصد ترے بیان سے دل ایسا ٹہر گیا
گویا کہ کسی نے رکه دیا سینے پے آکے ہاتھ

کوچہ سے تیرے اٹھیں تو پھر جاہیں ہم کہاں
بیٹھے ہیں یاں تو دونو جہاں سے اٹھا کے ہاتھ

دینا وہ اسکا ساغر مے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر ادھر کو ،ادھر کو بڑھا کے ہاتھ



کشور ناہید : وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا

ہم کو تو احتیاط غم دل عزیز تھی
کچ اس لیے بھی کم نگہی کا گل نہ تھا

دست خیال یار سے چھوٹے شفق کے رنگ
نقش قدم بھی رنگ حنا کے سوا نہ تھا

ڈھونڈا بہت اسے کہ بلایا تھا جسنے پاس
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا

کچھ اس قدر تھی گرمی بازار آرزو
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا

کیسے کریں ذکر حبیب جفا پسند
جب نام دوستوں میں بھی لینا روا نہ تھا

کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا



عبید اللہ علیم : خیال وخواب ہوئی محبتیں کیسی

خیال وخواب ہوئی محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ھیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ھیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ھیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ھیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ھیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکائتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ھے
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عناتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ھے سیاستیں کیسی

نہ صاحبانِ جنوں ھیں نہ اہل کشف وکمال
ہمارے عہد میں*آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ھے سو وہ اب سنگ وخشت لاتا ھے
فضا یہ ہو تو دلوں کی نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ھے بچا رکھو خود کو
یہاں*صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

جوش ملیح آبادی : سوز غم دے کے اس نے یہ ارشاد کیا

سوز غم دے کے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جنکو تیری نگہ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا مینے تجھے یاد کیا

اسکا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اسکا غم ہے کہ بہت در میں برباد کیا

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شائد
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا



ناصر کاظمی : آج تو بے سبب اداس ہے جی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی

آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی



مجروح سلطاں پوری : مجھے سہل ہو گیں منزلیں ،وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

مجھے سہل ہو گیں منزلیں ،وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

وہ لجاے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر
اڑی زلف چہرے پے اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے

وہی بات جو نہ وہ کیہ سکے مرے شعر و نغموں میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنھیں چھو سکا ،قدح شعراب میں ڈھل گئے

تجھے چشم مست پتا بھی ہے کہ شباب گرمی بزم ہے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ جہاں کے طور بدل گے

وہی استان ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستین
دل زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے

میرے کام آ گئی آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں
بڑھیں اس قدر میری منزلیں کہ قدم کے خار بدل گئے



نصیر احمد ناصر : جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں

جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں
ہاتھوں میں تھی کتاب مگر سو رہا تھا میں

جب رات اپنے رقص کی دیوانگی میں تھی
نکلا وہ ماہتاب مگر سو رہا تھا میں

جلتی تھی لالٹین کہیں دور گاؤں میں
روشن تھا کوئی باب مگر سو رہا تھا میں

اک خوابگوں سی دھند تھی آنکھوں کی جھیل میں
سورج تھا زیر آب مگر سو رہا تھا میں

مجھ کو پکارتے رہے ناصر تمام رات
خوشبو، ہوا، گلاب مگر سو رہا تھا میں


حسرت موہانی : توڑ کر عہد کرم نہ آشنا ہو جائیے

توڑ کر عہد کرم نہ آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

میرے عذر جرم پر متلعق نہ کیجئے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے

راہ میں مِلیےکبھی مجھ سے تو از راہ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فورن جدا ہو جائیے

میری تحریر ندامت کا نہ دیجئے کچھ جواب
دیکھ لیجیے اور تغافل آشنا ہو جائیے

مجھ سے تنہائ میں جو ملئے تو دیجئے گالیاں
اور بزم غیر میں جان حیا ہو جائیے

ہاں یہی میری وفا ے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اس سے بھی زیادہ پر جفا ہو جائیے



عزم بہزاد : بولتے ہیں یوں کہ شاید خود کو سُننا چاہتے ہیں

بولتے ہیں یوں کہ شاید خود کو سُننا چاہتے ہیں
اپنے سر ہم اپنی ہی باتوں پہ دُھننا چاہتے ہیں

پہلے اپنی خواہشوں کو ہم نے ہر جانب بکھیرا
اب انھیں حسرت زدہ پلکوں سے چُننا چاہتے ہیں

اپنی چُپ کا اک سبب یہ ہے کہ فرہنگ_بیاں میں
لفظ وہ ناپید ہیں ، جو لوگ سُننا چاہتے ہیں



افتخار جبیں : جانے والے تیری یادوں کو بھلا کر دیکھا

جانے والے تیری یادوں کو بھلا کر دیکھا
لوح دل سے ترا ہر نقش مٹا کر دیکھا

ساری دنیا کو نظر آنے لگے تیرے نقوش
جب بھی آنکھوں میں کبھی تجھ کو چھپا کر دیکھا

تیرے جاتے ہی خفا ہو گئی دنیا ساری
بارہا ہم نے یہ احساس مٹا کر دیکھا

سنگ دل میری وفاؤں کا تو قائل نہ ہوا
زخم ہر بار نیا تو نے لگا کر دیکھا

راس کیوں دوستی آئ نہ کسی کی ہمکو
ہم نے ہر طور سے پیمان نبھا کر دیکھا

بھول بھی جو اب تو زمانے کے ستم اب تو جبیں
ہنسنے والومن نے تمہیں کتنا ستا کر دیکھا



سید تصور حسن تصور : درد میں ڈوبی ہوئی ایک داستان ہے زندگی

درد میں ڈوبی ہوئی ایک داستان ہے زندگی
لڑ کھڑاتی حسرتوں کا کارواں ہے زندگی

ہر گھڑی ہے تلخیوں کی دھول چہرے پر اٹی
آج کے انسان پر کتنی گراں ہے زندگی

کس طرح ہموار ہونگے درد کے یہ فاصلے
جب سکوں جاوداں کے درمیان ہے زندگی

جل رہی ہیں نفرتوں کی آگ میں اہل وفا
الفتوں کی لاش پر ماتم کناں ہے زندگی

لٹ رہا ہے آج اہل علم و فن کا بھی وجود
انسانیت کے نام پر بار گراں ہے زندگی

جذبۂ احساس کے فقدان کا ماتم نہ کر
درد دل کے واسطے ملتی خان ہے زندگی



عاصی گیلانی : قسمت میں حادثہ جو لکھا تھا وہ ہو گیا

قسمت میں حادثہ جو لکھا تھا وہ ہو گیا
میرے وجود میں تو کوئی کرب ہو گیا

وہ پھول ایسا شخص تھا کس درجہ سنگ دل
چھپ چاپ فصل خار مرے دل میں بو گیا

ایک میں کہ اسکے غم میں برابر کا تھا شریک
ایک وہ کہ کھل کے اپنی تباہی پی رو گیا

سورج نے مجھ کو وقت شر یہ صلہ دیا
نکلا تو میرے جسم میں کرنیں چبھو گیا

مگر شہر کے ہجوم سے راہ خضر ملی
آیا جو گھر تو بھیڑ میں بچوں کی کھو گیا

چڑھتے ہی دھوپ رزق کی نکلا تلاش میں
ہوتے ہی شام یاد کے جنگل میں کھو گیا

کل تک تو میرے ساتھ ،اب کیا بتاؤں میں
کس شہر سے چلا تھا وہ کس دشت کو گیا

آنکھیں کھلی تو قلب میں بکھرا ہوا تھا نور
ایک نیکیوں کا ہاتھ گناہوں کو دھو گیا



سردار شیزاد نواز : لکھتا ہوں کوئی شعر میں جب خون جگر سے

لکھتا ہوں کوئی شعر میں جب خون جگر سے
پتھر بھی پگھلتے ہوئے پاتا ہوں اثر سے

شاید کبھی اپنایا تھا میں نے بھی کسی کو
جاتا نہیں ایک عکس سا کیوں قلب نظر سے

بس اتنی خبر ہے کہ ہمیں کر گیا برباد
آیا تھا کوئی شخص خدا جانے کدھر سے

دو چار برس میرے بھی گزرے ہیں وہاں پر
وابستہ ہیں یادیں میری ظالم کے نگر سے

یہ حکم ہے اس بادشاہ حسن کا یاروں
دیوانوں سے کہ دو کہ وہ گزرن نہ ادھر سے

ہر رنگ میں ہر حل میں کیوں دیکھیں ترا روپ
چھپ جائے یہ گستاخ ، میں کہتا ہوں قمر سے

شہزاد بڑی در کے بعد آنکہ کھلی ہے
اجڑا ہوا نکلا ہوں محبت کے شہر سے



نصیر احمد ناصر : دل سے میرے وہ ستم گر نکلا

دل سے میرے وہ ستم گر نکلا
آئنہ توڑ کے پتھر نکلا

اس کی آنکھوں میں کنارہ تھا کوئی
ڈھونڈنے جس کو سمندر نکلا

تو اگر خواب تھا میرا تو بتا!
کیوں مری نیند سے باہر نکلا

منزلیں ہاتھ کی دوری پہ رہیں
راستہ پاؤں کا چکر نکلا

پھر ہوئی قید کوئی شہزادی
پھر حویلی سے کبوتر نکلا

ایک دل تھا کہ سرشام بجھا
ایک آنسو تھا کہ جل کر نکلا

زلزلے مجھ میں کچھ ایسے آئے
اک جزیرہ مرے اندر نکلا

دیکھتی رہ گئیں آنکھیں ناصر
ایسا منظر پس منظر نکلا


خالد احمد : ترک تعلقات پے رویا ، نا تو ، نا میں

ترک تعلقات پے رویا ، نا تو ، نا میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نا تو، نا میں

حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نا تو ، نا میں

ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لب گویا نا تو ، نا میں

نوح فصیل ضبط سے اونچے نا ہو سکے
کھل کر دیر سنگ میں رویا نا تو ، نا میں

جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی
برگشتہ آسمان سے گویا نا تو ، نا میں



حبیب جالب : اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے

اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں ، یہی بات بڑی بات ہے پیارے

یہ ہنستا ہوا چاند ، یہ پر نور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارمان ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

ہر صبح ، میری صبح پے روتی رہی شبنم
ہر رات میری رات پے ہنستے رہے تارے

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں آے غم جاناں
کب تک کوئی الجھی ہی زلفوں کو سنوارے


ثناء اللہ ظہیر : دل ' کہ ویران ' اسے اور بھی ویران کیا

دل ' کہ ویران ' اسے اور بھی ویران کیا
یوں تیرے ہجر کی تکمیل کا سامان کیا

روشنی دیکھ کے بے وقت پرندے جاگے
پھر پرندوں نے میرے خواب کا نقصان کیا

شہر کی آگ ہوئی سرد ' تو میں نے ' اپنی
راکھ سے اٹھ کے نئی جنگ کا اعلان کیا

گرد اس شہر کی روشن میرے ماتھے پہ ہوئی
پھر میرے عکس نے آئینے کو حیران کیا

موت کے پار اترنا بڑا مشکل تھا ظہیر
میرے دشمن نے میرا راستہ آسان کیا


ثناء اللہ ظہیر : اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر
ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ
سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر
میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں


فراق گورکھ پوری : بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے آے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
تو ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

؂ہم آہنگی بھی ایک چاشنی ہے اختلافوں کی
مری باتیں بعنوان دگر وہ ماں لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتا دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

ز رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے
تیرا آے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

فراق اکثر بدل کر بھس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں



خواجہ رضی حیدر : مکیں سے کہنے لگا اک مکاں کا سناٹا

مکیں سے کہنے لگا اک مکاں کا سناٹا
ہے تیرے دم سے سلامت یہاں کا سناٹا

بہار اپنی حکایت سے آشنا ہی نہیں۔
خزاں کے ساتھ کھڑا ہے خزاں کا سناٹا۔

ہجومِ کار میں اب یاد ہی نہیں رہتا
کہ دل کو کھینچ رہا ہے کہاں کا سناٹا

نہ جانے کونسی جانب نکل گئے طائر
چہک رہا ہے بہت آشیاں کا سناٹا۔


قتیل شفائی : نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے

نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے
اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے

کیا ملے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے

سب نے پہنا تھا بڑے شوق سے کاغذ کا لباس
جس قدر لوگ تھے بارش میں نہانے والے

مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے

در و دیوار پہ حسرت سی برستی ھے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے


قتیل شفائی : ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو

خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو

گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو

یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو

انسان کا اگر قدوقامت نہ بڑھ سکے
تم اِس کو نقصِ آب و ہوا کہہ لیا کرو

اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجات ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو

لے دے کے اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیل
جب دِل جلے تو اُس کو دیا کہہ لیا کرو


خواجہ حیدر علی آتش : آئینہ خانہ کرینگے دل ناکام کو ہم

آئینہ خانہ کرینگے دل ناکام کو ہم
پھریں گے اپنی طرف روے دل آرام کو ہم

شام سے صبح تلک دور شراب آخر ہے
روتے ہیں دیکھ کے خنداں دہن جام کو ہم

یاد رکھنے کی جگہ ہے یہ طلسم حیرت
صبح کو دیکھتے ہی بھول گے شام کو ہم

آنکھ وہ فتنۂ دوران کسے دکھلاتا ہے
شعبدہ جانتے ہیں گردش ایام کو ہم

خون قاتل کو وہ سفاک سمجھتا ہے حلال
کسی غماز سے بھجواہیں گے پیغام کو ہم

پاؤں پکڑے ہیں زمین نے یہ تیرے کوچہ کی
رہ صد سالہ سمجھتے ہیں اب ایک گام کو ہم

کوچہ یار میں اپنا جو گزر ہوتا ہے
نگران رہتے ہیں حسرت سے در و بام کو ہم

حسن سے عشق کی خاطر ہے خدا نے بھیجا
کرتے ہیں آتش ، اسے آے ہیں جس کام کو ہم



پروین شاکر : آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا

آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ
کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا

کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا
کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا

واں شہر ڈُوبتے ہیں ، یہاں بحث کہ اُنہیں
خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا

کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا

طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا

غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا

اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
’’مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا


نواز دیو بندی : کرنے کو تو ہر بات کو ہم یاد کرینگے

کرنے کو تو ہر بات کو ہم یاد کرینگے
پر تجھ کو بہت تیری قسم یاد کرینگے

جس سر کی تیرے شہر میں توہین ہوئی ہے
اس سر کو تیرے نقش قدم یاد کرینگے

غیروں کو تو کیا رنج میری موت کا ہوگا
احباب بھی دو چار قدم یاد کرینگے

اپنو کی عنایت کا یہی حال رہا ہے
ہم اپنے رقیبوں کے ستم یاد کرینگے

آ جایں گی ایک روز ہمیں راس جفایں
کچھ روز مگر تیرے ستم یاد کرینگے

تقدیر ہمیں لاکھ مسرت سے نوازے
ہم آپکے بخشے ہوئے غم یاد کرینگے



ریحانہ قمر : میں نہیں بولتی

کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی
جا او جھوٹی ہوا میں نہیں بولتی

چھوڑ دے میری دہلیز کو چھوڑ دے
تجھ سے کہ جو دیا، میں نہیں بولتی

مجھ سے اب میٹھے لہجے میں باتیں نہ کر
میرا دل بجھ چکا میں نہیں بولتی

مجھ کو معلوم ہے جتنی اچھی ہوں میں
اب نہ باتیں بنا میں نہیں بولتی

اب کسی چال میں مَیں نہیں آؤں گی
چاہے قسمیں اُٹھا میں نہیں بولتی

یہ جو اِک مور سا میرے آنگن میں ہے
جب نہیں بولتا میں نہیں بولتی

میرے پاؤں سے دھرتی کھسکنے لگی
جب بھی ماں نے کہا میں نہیں بولتی

پہلے اس کے لئے سب سے لڑتی پھری
پھر اسے کہ دیا میں نہیں بولتی

اب صفائی کا موقع نہ دوں گی اسے
جو ہوا سو ہوا میں نہیں بولتی