Monday, April 18, 2011

کشور ناہید : وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا

ہم کو تو احتیاط غم دل عزیز تھی
کچ اس لیے بھی کم نگہی کا گل نہ تھا

دست خیال یار سے چھوٹے شفق کے رنگ
نقش قدم بھی رنگ حنا کے سوا نہ تھا

ڈھونڈا بہت اسے کہ بلایا تھا جسنے پاس
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا

کچھ اس قدر تھی گرمی بازار آرزو
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا

کیسے کریں ذکر حبیب جفا پسند
جب نام دوستوں میں بھی لینا روا نہ تھا

کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا



0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔