Sunday, June 12, 2011

اعتبار ساجد : مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں

مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں
مرے شعر ، میری صداقتیں ، مری دھڑکنیں ، مری چاہتیں

تجھے جذب کرلوں لہو میں میں کہ فراق کا نہ رہے خطر
تری دھڑکنوں میں اتار دوں میں یہ خواب خواب رفاقتیں

یہ ردائے جاں تجھے سونپ دوں کہ نہ دھوپ تجھ کو کڑی لگے
تجھے دکھ نہ دیں مرے جیتے جی سرِ دشت غم کی تمازتیں

مری صبح تیری صدا سے ہو ، مری شام تیری ضیا سے ہو
یہی طرز پرسشِ دل رکھیں تری خوشبوں کی سفارتیں

کوئی ایسی بزم بہار ہو میں جہاں یقین دلا سکوں
کہ ترا ہی نام ہے فصلِ گل ، کہ تجھی سے ہیں یہ کرامتیں

ترا قرض ہیں مرے روز و شب ، مرے پاس اپنا تو کچھ نہیں
مری روح ، میری متاعِ فن ، مرے سانس تیری امانتیں

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔