Wednesday, June 22, 2011

حبیب جالب : یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں

یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں
یہ زندگی نصیب ہے لوگوں کو کم یہاں

کوشش کے باوجود بھلائے نہ جائیں گے
ہم پر جو دوستوں نے کئے ہیں کرم یہاں

کہنے کو ہمسفر ہیں بہت اس دیار میں
چلتا نہیں ہے ساتھ کوئی دو قدم یہاں

دیوار ِ یار ہو کہ شبستانِ شہرِ یار
دو پل کو بھی کسی کے نہ سائے میں تھم یہاں

نظمیں اداس اداس فسانے بُجھے بُجھے
مدت سے اشکبار ہیں لوح و قلم یہاں

اے ہم نفس یہی تو ہمارا قصور ہے
کرتے ہیں دھڑکنوں کے فسانے رقم یہاں

جمال احسانی : ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے

ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے

اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے

کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے

پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے

کیا اس سے ملاقات کا امکاں‌ بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے

آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے

نادم ہے بہت تو بھی جمال اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے

جمال احسانی : کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا

کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا
میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا

وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا

اگر میں کھڑکیا ں، دروازے بند کر لیتا
تو گھر کا بھید سرِ رہ گزر چلا جاتا

مرا مکاں مری غفلت سے بچ گیا ورنہ
کوئی چرا کے مرے بام و در چلا جاتا

تھکن بہت تھی مگر سایہء شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا

پروین شاکر : وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا

وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا
وہ رنگ رنگ میں اُترا، کرن کرن میں رہا

وہ نام حاصلِ فن ہوکے میرے فن میں رہا
کہ رُوح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا

سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل، کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا

وہ شہر والوں کے آگے کہیں مہذب تھا
وہ ایک شخص جو شہروں سے دُور بَن میں رہا

چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا

احمد فراز : برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا

برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا

ابرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا

خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا

پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا

اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
کچھ زہر میں بُجھا تھا احباب کا دلاسا

پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے
پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا

اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا

تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا

ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا

ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

جون ایلیا : وہی حساب تمنا ہے اب بھی آ جاؤ

وہی حساب تمنا ہے اب بھی آ جاؤ
وہی ہے سر وہی سودا ہے ، اب بھی آ جاؤ

جسے گئے ہوے خود سے ایک زمانہ ہوا
وہ اب بھی تم میں بھٹکتا ہے اب بھی آ جاؤ

وہ دل سے ہار گیا ہے پر اپنی دانست میں
وہ شخص اب بھی یگانہ ہے اب بھی آ جاؤ

میں خود نہیں ہوں کوئی اور ہے میرے اندر
جو تم کو اب بھی ترستا ہے اب بھی آجاؤ

میں یاں سے جانے ہی والا ہوں اب ، مگر اب تک
وہی ہے گھر وہی حجرہ ہے ، اب بھی آ جاؤ

وہی کشاکش احساس ہے با ہر لمحہ
وہی ہے دل وہی دنیا ہے ،اب بھی آ جاؤ

تمہیں تھا ناز بہت جسکی نام داری پر
وہ سارے شہر میں رسوا ہے اب بھی آ جاؤ

یاں سے ساتھ ہی خوابوں کے شہر جاینگے
وہی جنوں وہی صحرا ہے اب بھی آ جاؤ

میری شراب کا شہرہ ہے اب زمانہ میں
سو یہ کرم ہے تو کس کا ہے اب بھی آ جاؤ

یہ طور !جان جو ہے میری بد شرابی کا
مجھے بھلا نہیں لگتا ہے اب بھی آ جاؤ

کسی سے کوئی بھی شکوہ نہیں مگر تم سے
ابھی تلک مجھے شکوہ ہے اب بھی آ جاؤ

وہ دل کہ اب ہے لہو تھوکنا ہنر جسکا
وہ کم سے کم ابھی زندہ ہے ، اب بھی آ جاؤ

محسن نقوی : چلو چھوڑو

محبت جھوٹ ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
چلو چھوڑو
کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ
چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو
میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے
تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو
میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں کے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹی ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا

علامہ اقبال : برتر از اندیشہِ سود و زیاں ھے زندگی

برتر از اندیشہِ سود و زیاں ھے زندگی
ھے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ھے زندگی

تو اسے پیمانہِٴ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ھر دم جواں ھے زندگی

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ھے
سرِ آدم ھے ضمیرِ کن فکاں ھے زندگی

زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ھے زندگی

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ھے اک جوے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ھے زندگی

سرور عالم راز سرور : ابتدائے شوق کااعلانِ مستانہ ہوں میں

ابتدائے شوق کااعلانِ مستانہ ہوں میں
انتہائے عشق کا اظہارِ رندانہ ہوں میں

کھیل ہے دنیا کی ہر فرزانگی میرے لئے
اور ظالم یہ سمجھتی ہے کہ دیوانہ ہوں میں!

آشنائے حسن ہوں، مستِ ہوائے شوق ہوں
محفلِ اہلِ خرد میں ایک ہی دانا ہوں میں

وہ فغاں سینے میں گھٹ گھٹ کر جو آخر مر گئی
جو ادھورا رہ گیا ہونٹوں پہ، افسانہ ہوں میں

دیکھ یہ رنگِ خودی، دیوانہ دیوانوں میں ہوں
اور یہ بھی دیکھ، فرزانوں میں فرزانہ ہوں میں!

وہ حریم شوق اور خلوت کی وہ نیرنگیاں
کیسی عالم ساز یادوں کا صنم خانہ ہوں میں!

کوئی دن جاتا ہے محفل میں چھلک جاؤں گا میں
آبِ تلخِ زیست سے لبریز پیمانہ ہوں میں

یہ تما شا گاہِ عالم اور یہ میری بیخودی
کیا کہوں دنیا کی جب خود سے ہی بیگانہ ہوں میں

چھیڑتے ہیں کیوں مجھے یہ مے گسارانِ سخن؟
لاکھ بے قیمت ہوں پر معیارِ میخانہ ہوں میں!

یادِ ماضی بھی اِدھر آتے ہوئے گھبرائے ہے
کس قدر وحشت ہے، ویرانہ سا ویرانہ ہوں میں!

یاد آتا ہے مجھے سرور! سرِ دارِ خرد
وہ ترا کہنا کہ ”دیوانہ ہوں، دیوانہ ہوں میں

عبید اللہ علیم : غم کا علاج، دُکھ کا مداوا کرے کوئی

غم کا علاج، دُکھ کا مداوا کرے کوئی
جب خواب ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی

سو سلسلے خیال کے، سو رنگ خواب کے
کچھ سوچ کر کسی کی تمنّا کرے کوئی

بُجھتی نہیں ہے پیاس کہ جانے کہاں کی ہے
پیاسی زمیں پہ ابر سا برسا کرے کوئی

آؤں جو ہوش میں تو مئے بے خودی وہ دے
گرنے لگوں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی

یارانِ جان و دل کو کوئی جمع پھر کرے
جو بھی ہو جس کا حال، سنایا کرے کوئی

جب دل کو اشک و آہ کے ساماں نہ ہوں بہَم
اس بے کسی میں یاد نہ آیا کرے کوئی

کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر
دیتے ہیں پھر دُہائی کہ سایہ کرے کوئی

جو تِیرہ بخت ہے نہیں کھُلتی ہے اُس کی آنکھ
لاکھ آسماں سے روشنی لایا کرے کوئی

اس آدمی کے آپ مسیحا نہ ہوں اگر
کس میں ہے دم کہ اب اسے زندہ کرے کوئی

"ہے امن اس مکانِ محبت سرائے میں"
جب چاہے آئے شوق سے آیا کرے کوئی

وہ ہے طلسمِ خوابِ نظارہ کہ ایک بار
دیکھے اُسے تو بس اُسے دیکھا کرے کوئی

کر کے سپرد اک نگہۂِ ناز کو حیات
دنیا کو دین، دین کو دنیا کرے کوئی

چمکیں گے آسمانِ محبت پہ خود علیم
لفظوں کے ٹھیکروں کو ستارا کرے کوئی

عبید اللہ علیم : اک خواب ہے اور مستقل ہے

اک خواب ہے اور مستقل ہے
وہ شخص نہیں وہ میرا دل ہے

وہ رنگ ہے، نور ہے کہ خوشبو
دیکھو تو وہ کس قدر سجِل ہے

اے میرے بدن خبر ہے تجھ کو
تجھ سے مری روح متصّل ہے

جلتا تھا وہ اک چراغ تنہا
اب اس کا ظہور دل بہ دل ہے

کیا دل کو بہار دے گیا ہے
وہ زخم جو آج مندمل ہے

اک عالمِ وصل میں مسلسل
زندہ ہے وہ دل جو منفعل ہے

مظفر وارثی : شیشے میں چہرہ، چہرے پہ آنکھیں

شیشے میں چہرہ، چہرے پہ آنکھیں
آنکھوں کے پیچھے، سپنوں کا جنگل
جنگل میں دریا، دریا میں لہریں
لہروں پہ کشتی، کشتی میں ہلچل
جذبات نکھریں، جب مجھ پر بکھریں
چندا کی کرنیں، شاخوں کے سائے
اُجلے اندھیرے، ساتھی ہیں میرے
جینا بھی چاہوں، مرنا بھی آئے
میرا فسانہ، میری کہانی
کتنی ادھوری، کتنی مکمل
جتنے دِیے ہیں، میرے لیے ہیں
دل مجھ پر واریں، رنگین بہاریں
باغوں میں کلیاں، کلیوں میں خوشبو
خوشبو کے جھونکے، مجھ کو پکاریں
جھونکوں سے مل کر، آنگن میں دل کے
پگلی تمنا، ناچے مسلسل

جمال احسانی : سلوک ناروا کا اس لیے شکوہ نہیں کرتا

سلوک ناروا کا اس لیے شکوہ نہیں کرتا
کہ میں بھی تو کسی کی بات کی پرواہ نہیں کرتا

بہت ہوشیار ہوں اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں
میں دل کی بات کو دیوار پہ لکھا نہیں کرتا

اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا

زمیں پیروں سے کتنی بار ایک دن میں نکلتی ہے
میں ایسے حادثوں پہ دل مگر چھوٹا نہیں کرتا

تیرا اصرار سر آنکھوں پر تجھ کو بھول جانے کی
میں کوشش کر کے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا

عزیز وارثی : یہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے

یہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے
چمن میں راس نہ آئے گی بہار مجھے

تیری لطیف نگاہوں کی خاص جنبش نے
بنا دیا تیری فطرت کا رازدار مجھے

میری حیات کا انجام اور کچھ ہوتا
جو آپ کہتے کبھی اپنا جانثار مجھے

بدل دیا ہے نگاہوں نے رخ زمانے کا
کبھی رہا ہے زمانے پہ اختیار مجھے

یہ حادثات جو ہیں اضطراب کا پیغام
یہ حادثات ہی آئیں *گے سازگار مجھے

عزیز اہلِ چمن کی شکائت بے سود
فریب دے گی رنگینئی بہار مجھے

ناصر کاظمی : بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز

بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز
بلا رہی ہے ابھی تک وہ دل نشیں آواز

وہی دلوں میں تپش ہے، وہی شبوں میں گداز
مگر یہ کیا کہ مری زندگی میں سوز نہ ساز

نہ چھیڑ اے خلشِ درد، بار بار نہ چھیڑ
چھپاۓ بیٹھا ہوں سینے میں ایک عمر کا راز

بس اب تو ایک ہی دھن ہے کہ نیند آ جاۓ
وہ دن کہاں کہ اٹھائیں شبِ فراق کے ناز

گزر ہی جاۓ گی اے دوست تیرے ہجر کی رات
کہ تجھ سے بڑھ کے تےرا درد ہے مرا ہم ساز

یہ اور بات کہ دنیا نہ سن سکی ورنہ
سکوتِ اہلِ نظر ہے بجاۓ خود آواز

یہ بے سب نہیں شام و سحر کے ہنگامے
اٹھا رہا ہے کوئ پردہ ہاۓ راز و نیاز

ترا خیال بھی تیری طرح مکمّل ہے
وہی شباب، وہی دل کشی، وہی انداز

شراب و شعر کی دنیا بدل گئ لیکن
وہ آنکھ ڈھونڈ ہی لیتی ہے بے خودی کا جواز

عروج پر ہے مرا درد ان دنوں ناصر
مری غزل میں دھڑکتی ہے وقت کی آواز

سرور عالم راز سرور : بے نام ہوں، بے کار ہوں، بدنام نہیں ہوں

بے نام ہوں، بے کار ہوں، بدنام نہیں ہوں
شاعر ہوں مگر مستِ مئے خام نہیں ہوں

اک عمر ترے در پہ ہی سجدوں میں کٹی ہے
یہ کیسے کہا، واقفِ اسلام نہیں ہوں؟

اتنا نہ ستا، دیکھ! مجھے گردشِ دوراں
کمزور ہوں، شائستۂ آلام نہیں ہوں

مذہب ہے مرا عشق تو مسلک ہے محبت
”اس باب میں تو موردِ الزام نہیں ہوں“

دن رات جو ہیں مجھ پہ عنایاتِ مسلسل
اتنا تو بُرا اے غمِ ایام نہیں ہوں

!ہر اشک چراغِ شبِ اُمید ہے میرا
جو راہ تکے صبح کی وہ شام نہیں ہوں

آدابِ محبت سے ہوں واقف میں یقیناً
ہاں یہ ہے کہ پابندِ رہِ عام نہیں ہوں

کیا چھوڑ دوں دنیا کے لئے گوشہ نشینی؟
صد شکر ہے سرور کہ میں خود کام نہیں ہوں

Sunday, June 12, 2011

اعتبار ساجد : مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں

مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں
مرے شعر ، میری صداقتیں ، مری دھڑکنیں ، مری چاہتیں

تجھے جذب کرلوں لہو میں میں کہ فراق کا نہ رہے خطر
تری دھڑکنوں میں اتار دوں میں یہ خواب خواب رفاقتیں

یہ ردائے جاں تجھے سونپ دوں کہ نہ دھوپ تجھ کو کڑی لگے
تجھے دکھ نہ دیں مرے جیتے جی سرِ دشت غم کی تمازتیں

مری صبح تیری صدا سے ہو ، مری شام تیری ضیا سے ہو
یہی طرز پرسشِ دل رکھیں تری خوشبوں کی سفارتیں

کوئی ایسی بزم بہار ہو میں جہاں یقین دلا سکوں
کہ ترا ہی نام ہے فصلِ گل ، کہ تجھی سے ہیں یہ کرامتیں

ترا قرض ہیں مرے روز و شب ، مرے پاس اپنا تو کچھ نہیں
مری روح ، میری متاعِ فن ، مرے سانس تیری امانتیں

فیض احمد فیض : بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرتے دیتے

بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرتے دیتے
اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے

دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ
اور ہمیں چاکِ گریباں نہیں کرنے دیتے

ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ھے
اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے

دل میں وہ آگ فروزاں ھے عدو جس کا بیاں
کوئی مضموں کسی عنواں نہیں کرنے دیتے

جان باقی ھے تو کرنے کو بہت باقی ھے
اب وہ جو کچھ کہ مری جاں نہیں کرنے دیتے

عبید اللہ علیم : ہنسو تو رنگ ھوں چہرے کا، روؤ تو چشمِ نم میں ھوں

ہنسو تو رنگ ھوں چہرے کا، روؤ تو چشمِ نم میں ھوں
تم مجھ کو محسوس کرو تو ھر موسم میں ھوں

چاھا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ھیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں‌ ھوں‌

لوگ محبت کرنے والے دیکھیں‌ گے تصویر اپنی
ایک شعاعِ آوارہ ھوں آئینئہ شبنم میں ھوں

اُس لمحے تو گردش خوں‌ نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمین اٹھائے اک رقصِ پیہم میں ھوں

یار مرا زنجیریں‌ پہنے آیا ھے بازاروں میں‌
میں‌کی تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں‌ ھوں‌

جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں‌ آنکھوں زندہ ھیں‌
جواب تک نہیں‌ لکھ پایا میں ، آن خوابوں‌کے گم میں‌ ھوں

عبید اللہ علیم : تیرے پیار میں رُسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ

تیرے پیار میں رُسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ

ہر لمحہ احساس کی صہبا رُوح میں ڈھلتی جاتی ہے
زیست کا نشّہ کچھ کم ہو تو ہو آئیں میخانے لوگ

جیسے تمہیں ہم نے چاہا ہے کون بھلا یوں چاہے گا
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ

یُوں گلیوں بازاروں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں
جیسے اس دنیا میں سبھی آئے ہوں عمر گنوانے لوگ

آگے پیچھے دائیں بائیں سائے سے لہراتے ہیں
دنیا بھی تو دشتِ بلا ہے ہم ہی نہیں دیوانے لوگ

کیسے دکھوں کے موسم آئے کیسی آگ لگی یارو
اب صحراؤں سے لاتے ہیں پھولوں کے نذرانے لوگ

کل ماتم بے قیمت ہوگا آج ان کی توقیر کرو
دیکھو خونِ جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ

مظفر منصور : جب وہ چلمن کو بڑھا ديتا ہے

جب وہ چلمن کو بڑھا ديتا ہے
نُطق تب ازنِ نوا ديتا ہے

ابّر دريا پہ اگر برسے تو
دشت ميں آگ لگا ديتا ہے

آئينہ ہو کے وہ منظر ميرا
سامنے ميرے سجا ديتا ہے

ميری تقدير بدل جاتی ہے
جب مرا پير دعا ديتا ہے

وہ جو اک روذِ جزّا سنتے ہيں
کيا وہ بچھژوں کو ملا ديتا ہے

اتنا وہ خوابِ طرّب ہے معلوم
نيند سے کوئ جگا ديتا ہے

احمد فراز : اب کے تجدیدِوفا کا نہیں اِمکاں جاناں

اب کے تجدیدِوفا کا نہیں اِمکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
بِن پیۓ ہی تیرا چہرا تھا گُلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم تھا کہ اب یاد نہیں
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

ہم کہ رُوٹھی ہوئی رُت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسمِ ہِجراں جاناں

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کِس قدر جلد بدل جاتے ہیں اِنساں جاناں

دل سمجھتا تھا کہ شاید ہو فسُردہ تُو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

مدّتوں سے یہی عالم نہ توقع، نہ اُمید
دل پُکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسی بھی گزاری تیرا احساں جاناں

اب تیرا نام بھی شاید ہی غزل میں آۓ
اور سے اور ہوۓ درد کے عُنواں جاناں

عبید اللہ علیم : اپنا احوال سنا کر لے جائے

اپنا احوال سنا کر لے جائے
جب مجھے چاہے منا کر لے جائے

میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو
میری تنہائی اٹھا کر لے جائے

وہ مجھے بھول گیا ہے شاید
یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے

ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں
خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے

خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو
جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے

در خزانے کا کہیں بند نہیں
یہ خزانہ کوئی آ کر لے جائے

دھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا
اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے

تجھ کو بھی کوچہ عشاقاں میں
اپنے مولا سے دعا کر، لے جائے

کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے

اک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے
ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے

کون محبوب ہوا ہے ایسا
اپنے عاشق کو بُلا کر لے جائے

پھر سے آ جائے کوئی چپکے سے
کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے

اس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں
جو مرے دل کو دکھا کر لے جائے

کوئی عیسیٰ مرے معبود کہ جو
تیرے مردوں کو جِلا کر لے جائے

ایسی دیوانگی و حیرانی
آئینہ کوئی دکھا کر لے جائے

سامنے سب کے پڑی ہے دنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے

ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے

ہو سخنور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرا کر لے جائے

ساغر صدیقی : کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہُوا

کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہُوا
اشک بھی حرفِ مُدّعا نہ ہُوا

تلخی درد ہی مقدّر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہُوا

ماہتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہُوا

آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا

وہ شہنشہ نہیں، بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہُوا

رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہُوا

ڈوبنے کا خیال تھا ساغرؔ
ہائے ساحل پہ ناخُدا نہ ہُوا

مظفر منصور : کہیں رُوپ رُوپ دیئے بُجھے کہیں زُلف سایہ بچھا لیا

کہیں رُوپ رُوپ دیئے بُجھے کہیں زُلف سایہ بچھا لیا
بڑی تِیرگی تھی ترے نگر سو میں اپنا گھر ہی جلا لیا

مرے حرف حرف تھے آیئنے کہ جو عکس آیا ٹھہر گیا
مری چشمِ خواب کے معجزے اُسے رتجگوں میں جگا لیا

مری زندگی بھی عجیب تھی، مری موت مجھ سے قریب تھی
مرے چارہ گر بڑی دُور تھے سو میں اپنا لاشہ اُٹھا لیا

کبھی مے و مینا میں گُم رہا کبھی ذات نشّے میں خُم رہا
مری عمرِ ہجر طویل تھی اسے جاگتے میں سُلا لیا

یہی بام و در کبھی خواب تھے یہی بام و در کہ عذاب ہیں
وہ جو میرے گھر میں بسا نہیں اسے چشمِ تر میں بسا لیا

تری کائناتوں کے درمیاں کئی روپ رنگ تھے ضَو فشاں
جسے چاہا خود سے جدا کیا جسے چاہا خود میں ملا لیا

کوئی لب ہلے تو دیئے جلے جو نویدِ صبحِ وصال تھے
کو ئی نور جی میں بکھر گیا کسی تِیرگی کو بجھا لیا

کوئی لامکانی طلسم تھا جو سبھی زمانوں کا اِسم تھا
وہ ہر ایک شے پہ جو بار تھا مرے عشق نے وہ اُٹھا لیا

مرے ہم نفَس مری زندگی ترے بن تو جاں سے گزر چلی
کبھی یوں لگے کہ جُدا ہے تُو کبھی یوں لگے تجھے پا لیا

عبد الحمید عدم : اس کی پائل اگر چھنک جائے

اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹھک جائے

اس کے ہنسنے کی کیفیت ، توبہ!
جیسے بجلی چمک چمک جائے

اس کے سینے کا زیرو بم ، توبہ!
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے

لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر اٹک جائے

ایسے بھر پور ہے بدن اس کا
جیسے ساون کا آم پک جائے

ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے

عبدالحمید عدم : وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

پروین شاکر : دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا

دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا
مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا

اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو
کچھ تو لازم ہُوا وحشت کرنا

جُرم کس کا تھا سزا کِس کو مِلی
کیا گئی بات پہ حُجت کرنا

کون چاہے گا تمھیں میری طرح
اب کِسی سے نہ محبت کرنا

گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مِل جائے تو زحمت کرنا

عبید اللہ علیم : میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں

میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غنچہ ہو کہ گُل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گُلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطّہء زمیں پر
وہی خطہء زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہَوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس ِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں

مظفر منصور : آئینے کی بزم تھی اک آئینہ تھا سامنے

آئینے کی بزم تھی اک آئینہ تھا سامنے
آشنا بیٹھا تھا کوئی آشنا تھا سامنے

کیسا نظارہ کہ ہوشِ دید ہی جاتا رہا
وہ قیامت حسن وہ قامت حیا تھا سامنے

ہوش ہوتے بھی تو کیا الفاظ میں ڈھلتا وہ شوخ
جانیئے کیا کیا نہاں تھا جانے کیا تھا سامنے

مانگنا آتا نہیں ورنہ اسی کو مانگتا
میں رہا خاموش سر تاپا دعا تھا سامنے

میری آنکھوں میں نہیں تھا جلوہ گر چہرہ تیرا
اک حیاء پیکر کا چہرہ آ گیا تھا سامنے

میں اک اپنی دھن میں تیری بزم کی رونق رہا
جانیئے کیا ناروا تھا کیا روا تھا سامنے

ہجر کی بارش میں جلتا تھا مرے دل کا نگر
سائباں میں بھیگتا وہ بھی کھڑا تھا سامنے

اک فسوں کے گھیر میں سب سے جدا رہتا ہے وہ
بھیڑ تھی عالم کی لیکن وہ جدا تھا سامنے

اپنی اپنی روشنی تھی اپنا اپنا تھا سفر
اک دیا تھا دل مرا اور اک دیا تھا سامنے

وہ جہاں جبریل بھی لا چار تھا اس اوج پر
اک محمد مصطفٰی تھا اک خدا تھا سامنے

اعتبار ساجد : ہم بھی شکستہ دل ہیں، پریشان تم بھی ہو

ہم بھی شکستہ دل ہیں، پریشان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ میری جان تم بھی ہو

ہم بھی ہیں ایک اجڑے ہوئے شہر کی طرح
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ ویران تم بھی ہو

درپیش ہے ہمیں بھی کڑی دھوپ کا سفر
سائے کی آرزو میں پریشان تم بھی ہو

ہم بھی خزاں کی شام کا آنگن ہیں، بے چراغ
بیلیں ہیں جس کی زرد وہ دالان تم بھی ہو

جیسے کسی خیال کا سایہ ہیں دو وجود
ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو

مل جائیں ہم تو کیسا سہانا سفر کٹے
گھائل ہیں ہم بھی، سوختہ سامان تم بھی ہو

نوشی گیلانی : عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے

عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے
ہجر کی پُوری رات آتی ہے صبحِ وصال سے پہلے

دِل کا کیا ہے دِل نے کتنے منظر دیکھے لیکن
...آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے

کس نے ریت اُڑتی شب میں آنکھوں کھول کے رکھیں
کوئی مثال تو دیناں اس کی مثال سے پہلے

کارِ محبت ایک سفر ہے اِس میں آ جاتا ہے
ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے

عشق میں ریشم جیسے وعدوں اور خوابوں کا رستہ
جتنا ممکن ہو طے کر لیں گر دِ ملال سے پہلے

نوشی گیلانی : اب بھی شاعر رہوں

اب بھی شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں
کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے ہُوئے
آنسوؤں میں چھُپے درد چُنتا پھرے
خواب بُنتا پھرے
...کون ہے جو مِرے خُون ہوتے ہُوئے دل کی آواز پر
اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پھرے
کون آنکھیں مِری دیکھ کر یہ کہے
’’کیا ہُوا جانِ جاں
کب سے سوئی نہیں
اس سے پہلے تو تم اِتنا روئی نہیں
اَب بھلا کِس لیے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں
اپنی حالت پہ خُود اتنی حیران ہیں ‘‘
کون بے چین ہو
کون بے تاب ہو

موسمِ ہجر ک شامِ تنہائی میں
آبلہ پائی میں
کون ہو ہم سفر ، گرد ہے رہگزر
کوئی رستہ نہیں کوئی راہی نہیں
در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں
دل کے ویران و برباد صفحات پر
جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں
ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں
سوچتی ہوں کہ اَب
ان خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں
کیوں میں شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں

اعتبار ساجد : ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے

ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
کوئی یوسف تھے کہ بازار میسر آتے
 
کیسا ہرجائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
 
اس گلی میں ابھی تِل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دو چار میسر آتے
 
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
 
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
 
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دِیا کام آیا
نہ یہ جلتا، نہ یہ اشعار میسر آتے

مظفر منصور : ننگِ بدّن تھا مجھکو گلے ميں جو ہار تھا

ننگِ بدّن تھا مجھکو گلے ميں جو ہار تھا
حائيل مجھے جنوں ميں گريباں کا تار تھا

ہم ايک راستے کے مسافر رہے مگر
ميرا تجھے تھا اپنا مجھے انتظار تھا

کھلتے بکھر گيا ہے ندائے بہار سے
گويا وہ گُل نہيں تھا دلِ بے قرار تھا

نسياں کے طاق پر بھی نہيں آج ھائے حيف
وحشت ميں اک خيال جو وجہہِ قرار تھا

مقتول ہوں ميں اسکی ادائے حجاب کا
کيونکر کہوں جو گفتہِ گفتارِ يار تھا

تھی تيرے ساتھ آب و ہوائے نشاطِ جاں
خواب و خيال و روح و بدّن ہمکنار تھا

رنجِ سفر کسی کے تصّور ميں کٹ گيا
ورنہ جو گُل تھا رہ ميں وہی موئے خار تھا

احمد فراز : ہجر جاناں کی گھڑی اچھی لگی

ہجر جاناں کی گھڑی اچھی لگی
اب کے تنہائ بڑی اچھی لگی

قریہ جان پہ اداشی کی طرح
دھند کی چادر بری لگی لگی

ایک تنہا فاختہ اڑتی ہوی
ایک ہرن کی چوکڑی اچھی لگی

زندگی کی گھپ اندھیری رات میں
یاد کی ایک پھلجھڑی اچھی لگی

شہر دل اور اتنے لوگوں کا ہجوم
وہ الگ سب سے کھڑی اچھی لگی

ایک شہزادی مگر دل کی فقیر
اسکو میری جھونپڑی اچھی لگی

دل میں آ بیٹھی غزل سی وہ غزال
یہ تصور کی گھڑی اچھی لگی

تیرا دکھ اپنی وفا کار جہاں
جو بھی شہ مہنگی پڑی اچھی لگی

آنکہ بھی برسی بہت بادل کے ساتھ
اب کے ساون کی جھری اچھی لگی

یہ غزل مجھ کو پسند ائی فراز
یہ غزل اسکو بڑی اچھی لگی

ظفر اقبال : یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا

یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

چمکتے چاند بھی تھے شہرِ شب کے ایواں میں
نگارِ غم سا مگر کوئی شمع رو نہ ملا

انہی کی رمز چلی ہے گلی گلی میں‌یہاں
جنہیں اِدھر سے کبھی اذنِ گفتگو نہ ملا

پھر آج میکدہ دل سے لوٹ آئے ہیں
پھر آج ہم کو ٹھکانے کا ہم سبو نہ ملا

سعد اللہ شاہ : ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیں‌ظالم کی پشیمانی کو

کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو

شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو

تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو

دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو

ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو

جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو

صوفی تبسم : یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو

احمد فراز : جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا

جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
آج کیا جانیے کیا یاد آیا

...پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
پھر ترا عہد وفا یاد آیا

جس طرح دھند میں‌لپٹے ہوئے پھول
ایک اک نقش ترا یاد آیا

ایسی مجبوری کے عالم میں‌ کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا

اے رفیقو سر منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا

یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں‌ یاد کہ کیا یاد آیا

جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی بھول گیا یاد آیا

یہ محبت بھی ہے کیا روگ فراز
جس کو بھولے وہ سدا یاد آیا

عبید اللہ علیم : خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
...
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھینچی ہوئی ہیں پس جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گیے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دے دی
میں سنگ راہ ہوں مجھ پر یہ عنایتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

نہ صاحبانِ جنوں ہیں نہ اہل کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ہے وہ اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

قتیل شفائی : تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ، ایسے تو حالات نہیں

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ، ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ھے ، اور تو کوئی بات نہیں

کس کو خبر تھی سانولے بادل ِبن برسے اڑ جاتے ھیں
ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں

ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رھی ھے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں

غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں
ُتو پر ُتو ھے، میرا تو سایا بھی میرے ساتھ نہیں

مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ھے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں

ختم ھوا میرا افسانہ اب یہ آنسو پونچھ بھی لو
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں

میرے غمگیں ھونے پر احباب ھیں یوں حیراں قتیل
جیسے میں پتھر ھوں ، میرے سینے میں جذبات نہیں

Monday, April 18, 2011

فرزانہ نیناں : پگلی


سپنےبنتےنیناں پر
ہونٹ جب اپنےرکھ دوگے
دھیرےدھیرےسرگوشی میں، کانوں سے،کچھ کہدوگے
اور میں۔۔۔آنکھیں موندےموندے
کروٹ اپنی بد لوں گی
گہری نیند کی شوخ ادا کو، چپکےچپکے، کھولوں گی
آنچل میں چہرےکو چھپا کر، کَن اَکھیوں سےدیکھوں گی
چاند کی چوڑی سےکرنیں،چھن چھن،چھن چھن ،ٹوٹیں گی
جھیل سی ٹھہری دھڑکن اُس دَم
دھک دھک ،دھک دھک بولےگی
اور تم بھی، دھیرےسےہنس کر
مجھ کو کہدوگے
پگلی۔۔۔!!!

سیدانجم کاظمی : اپنے ہاتھوں سے خود اپنے درد کا درماں لکھا


اپنے ہاتھوں سے خود اپنے درد کا درماں لکھا
دل کے کاغذ پر دُعاؤں کے برابر ماں لکھا

فرطِ غم سے دل کی دھڑکن جب بھی بےقابو ہوئی
لوحِ جاں پر زندگی نے مسکرا کر ماں لکھا

میں سراپا روشنی کا ایک حسیں مینا رہوں
دل کے اندر ماں* لکھا دل باہر ماں لکھا

حافظے کو مسئلہ درپیش تھا تجدید کا
ذہن کی دیوار پر میں نے مکرر ماں لکھا

دھوپ موسم مرا چہرا وہ آنچل کی ہوا
زندگی بھر میری آنکھوں نے یہ منظر ماں لکھا

میرا دامن بھر گیا ہے گوہرِ نایاب سے
جب بھی میں نے تجھ کو اے گہرے سمندر ماں لکھا

لکھ رہی تھی چاندنی جب ریت کے ذرات پر
چشمِ شبنم نے بھی پھولوں پہ اُتر کر ماں* لکھا

اُسی کے نام سے تھی ابتدائے خوش خطی
لفظ جتنے میں*نے لکھے سب سے بہتر ماں لکھا

عرش سے بھیجی تھی رب نے پہلی ماں جو فرش پر
نورِ ممتا اُس سے پھیلا جس نے گھر گھر ماں لکھا

اپنی ماں سے تیرا قد مجھ کو بہت چھوٹا لگا
تجھ پہ آکر میں نے جب چاہت کے ممبر ماں لکھا

میں نے انجم اپنا پیکر یوں منور کر لیا
صبح دم سے چاندنی تک بس سراسر ماں لکھا

عائشہ انمول : اُس کے لگتے ہیں یہ انداز نرالے مجھ کو

اُس کے لگتے ہیں یہ انداز نرالے مجھ کو
خود ہی ناراض کرے، خود ہی منالے مجھ کو

یاد ہیں اب بھی محبت کے حوالے مجھ کو
کاش آواز تو دے، کاش بُلا لے مجھ کو

اپنی دلہن کے حسیں روپ میں ڈھالے مجھ کو
ساری دنیا کی نگاہوں سے چُھپا لے مجھ کو

اک حسیں خواب ہوں، آنکھوں میں سجا لے مجھ کو
اپنے ہر خواب کی تعبیر بنا لے مجھ کو

میں تو خوشبو کی طرح تجھ میں بسی ہوں جاناں!
کہیں کرنا نہ ہواؤں کے حوالے مجھ کو

اُس کی چاہت میں عجب حال ہوا جاتا ہے
اُس سے کہیے کہ ذرا آکے سنبھالے مجھ کو

میں کہ دھڑکن کی طرح دل میں* بسی ہوں اُس کے
میرے گھر سے وہ بھلا کیسے نکالے مجھ کو

اب تو انمول وہی ہے مری آنکھوں کی ضیا
وہ جو آئے تو نظر آئیں اُجالے مجھ کو

جلیل قدوائی : دُور اس دنیا سے ہو کوئی جہاں میرے لئے


دُور اس دنیا سے ہو کوئی جہاں میرے لئے
اس جہاں میں تو نہیں امن و اماں میرے لئے!

اک جہاں جس میں نہ ہو فکر و تردّد کا ہجوم
اک جہاں جس میں نہ ہو شو رو فغاں میرے لئے

اک جہاں جس میں نہ ہو کچھ ما و تُو کا امتیاز
اک جہاں آزادِ قیدِ این و آں میرے لئے

اک جہاں جس میں نہ ہو علم و خرد کی دار و گیر
ہو نہ جس میں کاوشِ سودوزیاں میرے لئے

اک جہاں جس میں نہ ہو بغض و عداوت کا وجود
اور محبت ہی محبت ہو جہاں میرے لئے

اک جہاں جس میں مجھے امن و فراغت ہو نصیب
زندگی جس میں نہ بارِ گراں میرے لئے

اک جہاں جس میں مرا قول و عمل ہو معتبر
ہر قدم پر ہوں نہ جس میں امتحاں میرے لئے

بے ریائی ہو جہاں کے رہنے والوں کا شعار
اور محبت میں صداقت ہو جہاں میرے لئے

ظاہر و باطن جہاں کے بسنے والوں کا ہو ایک
ہوں نہ خنجر آستینوں میں نہاں میرے لئے

زندگانی ہو جہاں اک خواب شیریں کے مثال
ہر نفس جس کا ہو عمرِ جاوداں میرے لئے

جس کا ہر ذرہ ہو اک دنیا ئے ناپیدا کنار
جس کا ہر قطرہ ہو بحرِ بے کراں میرے لئے

دُور اس دنیا سے ہو ایسا جہاں میرے لئے
اس جہاں میں تو نہیں امن و اماں میرے لئے

احمد ندیم قاسمی : جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں


جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں
ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں

ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں

پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی
پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں

پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ
آؤ تو یہ اُجڑی ہوئی محفل بھی سجائیں

پھر لوٹ کے آئیں گے یہیں قافلے والے
اُٹھتی ہیں اُفق سے کئی غمناک صدائیں

شاید یہی* شعلہ مری ہستی کو جلا دے
دیتا ہوں میں اڑتے ہوئے جگنو کو ہوائیں

اے کاش ترا پاس نہ ہوتا مرے دل کو
اٹھتی ہیں پر رک جاتی ہیں سینے میں* صدائیں

اک آگ سی بھر دیتا ہے رگ رگ میں تبسّم
اس لطف سے اچھی ہیں حسینوں کی جفائیں

معبود ہو اُن کے ہی تصّور کی تجلّی
اے تشنہ لبو آؤ!* نیا دَیر بنائیں

ہم سنگِ دریا پہ بے ہوش پڑے ہیں
کہہ دے کوئی جبریل سے، بہتر ہے، نہ آئیں

ہاں، یاد تو ہوگا تمہیں راوی کا کنارا
چاہو تو یہ ٹوٹا ہوا بربط بھی بجائیں

توبہ کو ندیم آج تو قربان کرو گے
جینے نہیں دیتیں مجھے ساون کی گھٹائیں

اختر شیرانی : سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں آتا


سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں آتا
تڑپتا ہوں مگر اَوروں کو تڑپانا نہیں آتا

مرے اشعار مثلِ آئینہ شفاف ہوتے ہیں
مجھے مفہوم کو لفظوں میں اُلجھانا نہیں آتا

میں اپنی مشکلوں کو دعوتِ پیکار دیتا ہوں
مجھے یُوں عاجزی کے ساتھ غم کھانا نہیں آتا

میں ناکامِ مسّرت ہوں مگر ہنستا ہی رہتا ہوں
کروں کیا مجھ کو قبل از موت مر جانا نہیں آتا

یہ میری زیست خود اک مستقل طوفان ہے اختر
مجھے اِن غم کے طوفانوں سے گھبرانا نہیں آتا

بہزاد لکھنوی : میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی

میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی
آنکھ میں* آنکھ ڈال کر بندہ بنا گیا کوئی

مرگ و حیات کے مزے آہ دکھا گیا کوئی
آکے ہنسا گیا کوئی جاکے رلا گیا کوئی

سجدہء عشق کے لئے پائے صنم ضرور ہے
میری جبینِ شوق کو راز بتا گیا کوئی

مرے تصورات کا سحر عجیب سحر ہے
دیکھ مرے دل حزیں دیکھ وہ آگیا کوئی

سب کی طرف لطف بزم میں تھی رواں دواں
ایک نظر میں بے کہے سب کو مٹا گیا کوئی

فظرت عشق کے نثار اس کو مرا خیال تھا
صدقے غرورِ حسن کے مجھ سے چھپا گیا کوئی

محمد یوسف جمال : یہ اُلفت کی باتیں، محبت کی گھاتیں، جوانی کی راتیں، نہ پھر پاؤ گے

یہ اُلفت کی باتیں، محبت کی گھاتیں، جوانی کی راتیں، نہ پھر پاؤ گے
مِرے ساتھ اگر دادِ عشرت نہ دو گے، یہ دن یاد کر کر کے پچھتاؤ گے

حسینوں کی سُن کر وفاداریاں ہوگے بیحد خجل، دل میں شرماؤ گے
تم اپنا شباب اور میری مُحبّت، بہت یاد کر کر کے پچھتاؤ گے

مِرا تذکرہ بھی سنو گے کسی سے، تو آنکھوں میں تم اشک بھر لاؤ گے
مِرا نام لے لے کے کوسو گے خود کو، مجھے یاد کر کر کے پچھتاؤ گے

یہ حُسن و جوانی نہ قائم رہے گی، کبھی آئنہ دیکھ اگر پاؤ گے
تو حُسن و جوانی پہ چاہت سے نفرت، بہت یاد کر کر کے پچھتاؤ گے

جوانی کا مِینائے سربند خود جوشِ مستی سے، اک روز کُھل جائے گا
مئے حُسن مل جائے گی خاک میں، پینے والا میّسر نہیں* آئے گا

جوانی کا تم لاکھ ماتم کرو گے، مگر صبر پھر بھی نہیں آئے گا
محبّت کو ہر چند ڈھونڈو گے، اہلِ محبت نہ تم کو کوئی پائے گا

وفادار تم کاش ہوتے، یہ حسرت سدا کے لئے دل میں رہ جائے گی
تمنّا، کہ ہوتی تمہیں مجھ سے اُلفت، سدا کے لئے دل میں رہ جائے گی

شاہدہ حسن : مِرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

مِرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
جو خواب زندہ ہے مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نہ جانے کیوں اِضطرار سا ہے، ہر اک پل بے قرار سا ہے
یہ خوف دل میں اُتر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

عجب سی ساعت ہے آج سر پر، کہ آنچ آئی ہوئی ہے گھر پر
دُعا کہیں بے اثر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

یہ سجدہ گاہیں یہ فرش و منبر، جو ہیں ہمارے ہی خون سے تر
لہو کی یہ رُت ٹھہر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

یہ کن دُکھوں میں سلگ رہے ہیں، دماغ بارود لگ رہے ہیں
رَگوں میں یہ زہر بھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رُتوں کے تیور نہیں ہیں اچھے، بدل چکے دوستوں کے لہجے
یہ سیلِ نفرت بپھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نشانِ منزل تو ہے فروزاں مگر ہم ایسے مسافروں کی
کہیں اُسی پر نظر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رفاقتوں کا خیال رکھنا، دِلوں کو پیہم سنبھال رکھنا
بچھڑ کوئی ہم سفر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

سدا مُقدّم ہے تیری حُرمت، مِرے وطن تو رہے سلامت
وفا کا احساس مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

جگر مراد آبادی : ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں



ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
بس اک دل کی خاطر یہ تیاریاں ہیں

چمن سوز، گلشن کی گلکاریاں ہیں
یہ کس سوختہ دل کی چنگاریاں ہیں

نہ بے ہوشیاں اب، نہ ہشیاریاں ہیں
محبت کی تنہا فسوں کاریاں ہیں

نہ وہ مستیاں ہیں، نہ سرشاریاں ہیں
خودی کا ہی احساس خودداریاں ہیں

محبت اثر کرتی ہے چپکے چپکے
محبت کی خاموش چنگاریاں ہیں

نگاہ تجسس نے دیکھا جہاں تک
پرستاریاں ہی پرستاریاں ہیں

تجلی سے کہدو ذرا ہاتھ روکے
بہت عام اب دل کی بیماریاں ہیں

نہ آزاد دل ہیں، نہ بے قید نظریں
گرفتاریاں ہی گرفتاریاں ہیں

نہ ذوق تخیل، نہ ذوق تماشا
محبت ہے اب اور بے زاریاں ہیں

تغافل ہے اک شان محبوب لیکن
تغافل میں پنہاں خبرداریاں ہیں

کہاں میں، کہاں تازہ اشعارِ رنگیں
تری اک توجہ کی گلکاریاں ہیں

ازل سے ہے صرفِ دُعا ذرہ ذرہ
خدا جانے کیا کچھ طلبگاریاں ہیں

بچھے جارہے ہیں سب ہی دیدہء و دل
تری آمد آمد کی تیاریاں ہیں

قدم ڈگمگائے، نظر بہکی بہکی
جوانی کا عالم ہے، سرشاریاں ہیں

جگر ، زندگی لطف سے کٹ رہی ہے
غم آزاریاں ہیں ، جنوں کاریاں ہیں

کہاں پھر یہ ہستی، کہاں ایسی ہستی
جگر کی جگر تک ہی میخواریاں ہیں

سراج اونگ آبادی دکنی : خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی


واصف علی واصف : بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر

بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر
شیرازہ ملت ہوں ، بکھر جاتا ہوں اکثر

میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر
طوفان کے سینے میں اُتر جاتا ہوں اکثر

میں موت کو پاتا ہوں کبھی زیرِ کفِ پا
ہستی کے گماں سے بھی گزر جاتا ہوں اکثر

مرنے کی گھڑی آئے تو میں زیست کا طالب
جینے کا تقاضا ہو تو مر جاتا ہوں اکثر

رہتا ہوں اکیلا میں بھری دنیا میں واصف
لے نام مرا کوئی تو ڈر جاتا ہوں اکثر


انور مسعود : کب ضیاء بار ترا چہرہ ِ زیباہوگا

کب ضیاء بار ترا چہرہ ِ زیباہوگا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اُجالا ہوگا

مشغلہ اُس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا

جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبعیت اُس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اُس کو منانا ہوگ
ا
اِس طرف شہر اُدھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا

یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہوگا

آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انور
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے یدِ بیضا ہوگا

انور مسعود : میں جُرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا

میں جُرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اُسے کہیے جو دُہائی نہیں دیتا

کہتاہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاو
میں ورنہ تمہیں اِذنِ رہائی نہیں دیتا

چَرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اوردستِ ستمگر بھی دکھائی نہیں دیتا

آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیاء بھی
سب کچھ ہے مگر ہاتھ سجھائی نہیں دیتا

اب اپنی زمیں چاند کی مانند ہے انور
بولیں توکسی کو بھی سنائی نہیں دیتا

انور مسعود : رات آئی ہے بلاوں سے رہائی دے گی

رات آئی ہے بلاوں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی

یہ دُھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی

دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ تماشا ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی

ساتھ کے گھر میں بڑا شور بپا ہے انور
کوئی آئے گاتو دستک نہ سنائی دے گی

احمد فراز : وار فتگی میں دل کا چلن انتہا کا تھا

وار فتگی میں دل کا چلن انتہا کا تھا
اب بت پرست ہے جو نہ قائل خدا کا تھا

مجھ کو خود اپنے آپ سے شرمندگی ہوئی
وہ اس طرح کہ تجھ پہ بھروسا بلا کا تھا

وار اس قدر شدید کہ دشمن ہی کر سکے
چہرہ مگر ضرور کسی آشنا کاتھا

اب یہ کہ اپنی کشتِ تمناکو روئیے
اب اس سے کیا گلا کہ وہ بادل ہوا کا تھا

تونے بچھڑ کے اپنے سر الزام لےلیا
ورنہ فراز کا تو یہ رونا صدا کا تھا

عبيد اللہ عليم : دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا

دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا
تم بھی تو بے اماں ہوئے ہم کو ستا لیا تو کیا

آپ کے گھر میں ہر طرف منظر ماہ و آفتاب
ایک چراغ شام اگر میں نے جلا لیا تو کیا

باغ کا باغ آپ کی دسترسِ ہوس میں ھے
ایک غریب نے اگر پھول اٹھا لیا تو کیا

لطف یہ ھے کہ*آدمی عام کرے بہار کو
موج ہوائے رنگ میں*آپ نہا لیا تو کیا

اب کہیں بولتا نہیں*غیب جو کھولتا نہیں
ایسا اگر کوئی خدا تم نے بنا لیا تو کیا

جو ھے خدا کا آدمی اس کی ھے سلطنت الگ
ظلم نے ظلم سے اگر ہاتھ ملا لیا تو کیا

آج کی ھے جو کربلا کل پہ ھے اس کا فیصلہ
آج ہی* آپ نے اگر جشن منا لیا تو کیا

لوگ دکھے ہوئے تمام رنگ بجھے ہوئے تمام
ایسے میں اہل شام نے شہر سجا لیا تو کیا

پڑھتا نہیں ھے اب کوئی سنتا نہیں ھے اب کوئی
حرف جگا لیا تو کیا شعر سنا لیا تو کیا


عبيد اللہ عليم : جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے

جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے

ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے

وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے

کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے

ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے

ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے

یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے

کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیمؔ
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے


عبید اللہ علیم : ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ

ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ
میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ

روشنی آدھی اِدھر، آدھی اُدھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ

میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانے تھے نظاروں کے بیچ

ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ

کھا گیا انساں کو آشوبِ معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ

میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ

اپنی ویرانی کے گوہر رولتا
رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ

کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ

اہلِ دل کے درمیاں تھے میرؔ تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ

آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ
اک محمد مصطفےٰ ساروں کے بیچ



عبید اللہ علیم : شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے

شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے
یہ شہر دل سے زیادہ دُکھا سا لگتا ہے

ہر ایک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے
جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہُوا سا لگتا ہے

زمیں ہے سو وہ اپنی ہی گردشوں میں کہیں
جو چاند ہے سو وہ ٹُوٹا ہُوا سا لگتا ہے

مرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو
جو تم کہو، مجھے قہرِ خدا سا لگتا ہے

جو شام آئی تو پھر شام کا لگا دربار
جو دن ہُوا تو وہ دن کربلا سا لگتا ہے

یہ رات کھا گئی ایک ایک کر کے سارے چراغ
جو رہ گیا ہے وہ بجھتا ہُوا سا لگتا ہے

دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے

تو دل میں بُجھنے سی لگتی ہے کائنات تمام
کبھی کبھی جو مجھے تُو بُجھا سا لگتا ہے

جو آ رہی ہے صدا غور سے سُنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے

ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے
مگر ضمیر کا سودا بُرا سا لگتا ہے

یہ موت ہے کہ کوئی آخری وصال کے بعد
عجب سکون میں سویا ہُوا سا لگتا ہے

ہوائے رنگِ دو عالم میں جاگتی ہوئی لَے
علیم ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ہے



عبید اللہ علیم : کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں

کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا

تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا


الطاف حسیں حالی : ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹہرتی ہے دیکھے جا کر نظر کہاں

یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اسکو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

ایک عمر چاہے کہ گوارہ ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں

ہم جس پے مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لکھ سہی تو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زبان میں اثر کہاں

حالی نشت نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
اے ہو وقت صبح، رہے رات بھر کہاں



نظام رامپوری : آنگڑائی بھی وہ لینے نہ پاے اٹھا کے ہاتھ

آنگڑائی بھی وہ لینے نہ پاے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دے مسکرا کے ہاتھ

یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگایں غیر
اور اسکی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ

قاصد ترے بیان سے دل ایسا ٹہر گیا
گویا کہ کسی نے رکه دیا سینے پے آکے ہاتھ

کوچہ سے تیرے اٹھیں تو پھر جاہیں ہم کہاں
بیٹھے ہیں یاں تو دونو جہاں سے اٹھا کے ہاتھ

دینا وہ اسکا ساغر مے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر ادھر کو ،ادھر کو بڑھا کے ہاتھ



کشور ناہید : وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا

ہم کو تو احتیاط غم دل عزیز تھی
کچ اس لیے بھی کم نگہی کا گل نہ تھا

دست خیال یار سے چھوٹے شفق کے رنگ
نقش قدم بھی رنگ حنا کے سوا نہ تھا

ڈھونڈا بہت اسے کہ بلایا تھا جسنے پاس
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا

کچھ اس قدر تھی گرمی بازار آرزو
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا

کیسے کریں ذکر حبیب جفا پسند
جب نام دوستوں میں بھی لینا روا نہ تھا

کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا



عبید اللہ علیم : خیال وخواب ہوئی محبتیں کیسی

خیال وخواب ہوئی محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ھیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ھیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ھیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ھیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ھیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکائتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ھے
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عناتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ھے سیاستیں کیسی

نہ صاحبانِ جنوں ھیں نہ اہل کشف وکمال
ہمارے عہد میں*آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ھے سو وہ اب سنگ وخشت لاتا ھے
فضا یہ ہو تو دلوں کی نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ھے بچا رکھو خود کو
یہاں*صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

جوش ملیح آبادی : سوز غم دے کے اس نے یہ ارشاد کیا

سوز غم دے کے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جنکو تیری نگہ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا مینے تجھے یاد کیا

اسکا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اسکا غم ہے کہ بہت در میں برباد کیا

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شائد
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا



ناصر کاظمی : آج تو بے سبب اداس ہے جی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی

آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی



مجروح سلطاں پوری : مجھے سہل ہو گیں منزلیں ،وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

مجھے سہل ہو گیں منزلیں ،وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

وہ لجاے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر
اڑی زلف چہرے پے اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے

وہی بات جو نہ وہ کیہ سکے مرے شعر و نغموں میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنھیں چھو سکا ،قدح شعراب میں ڈھل گئے

تجھے چشم مست پتا بھی ہے کہ شباب گرمی بزم ہے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ جہاں کے طور بدل گے

وہی استان ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستین
دل زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے

میرے کام آ گئی آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں
بڑھیں اس قدر میری منزلیں کہ قدم کے خار بدل گئے



نصیر احمد ناصر : جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں

جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں
ہاتھوں میں تھی کتاب مگر سو رہا تھا میں

جب رات اپنے رقص کی دیوانگی میں تھی
نکلا وہ ماہتاب مگر سو رہا تھا میں

جلتی تھی لالٹین کہیں دور گاؤں میں
روشن تھا کوئی باب مگر سو رہا تھا میں

اک خوابگوں سی دھند تھی آنکھوں کی جھیل میں
سورج تھا زیر آب مگر سو رہا تھا میں

مجھ کو پکارتے رہے ناصر تمام رات
خوشبو، ہوا، گلاب مگر سو رہا تھا میں


حسرت موہانی : توڑ کر عہد کرم نہ آشنا ہو جائیے

توڑ کر عہد کرم نہ آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

میرے عذر جرم پر متلعق نہ کیجئے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے

راہ میں مِلیےکبھی مجھ سے تو از راہ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فورن جدا ہو جائیے

میری تحریر ندامت کا نہ دیجئے کچھ جواب
دیکھ لیجیے اور تغافل آشنا ہو جائیے

مجھ سے تنہائ میں جو ملئے تو دیجئے گالیاں
اور بزم غیر میں جان حیا ہو جائیے

ہاں یہی میری وفا ے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اس سے بھی زیادہ پر جفا ہو جائیے



عزم بہزاد : بولتے ہیں یوں کہ شاید خود کو سُننا چاہتے ہیں

بولتے ہیں یوں کہ شاید خود کو سُننا چاہتے ہیں
اپنے سر ہم اپنی ہی باتوں پہ دُھننا چاہتے ہیں

پہلے اپنی خواہشوں کو ہم نے ہر جانب بکھیرا
اب انھیں حسرت زدہ پلکوں سے چُننا چاہتے ہیں

اپنی چُپ کا اک سبب یہ ہے کہ فرہنگ_بیاں میں
لفظ وہ ناپید ہیں ، جو لوگ سُننا چاہتے ہیں



افتخار جبیں : جانے والے تیری یادوں کو بھلا کر دیکھا

جانے والے تیری یادوں کو بھلا کر دیکھا
لوح دل سے ترا ہر نقش مٹا کر دیکھا

ساری دنیا کو نظر آنے لگے تیرے نقوش
جب بھی آنکھوں میں کبھی تجھ کو چھپا کر دیکھا

تیرے جاتے ہی خفا ہو گئی دنیا ساری
بارہا ہم نے یہ احساس مٹا کر دیکھا

سنگ دل میری وفاؤں کا تو قائل نہ ہوا
زخم ہر بار نیا تو نے لگا کر دیکھا

راس کیوں دوستی آئ نہ کسی کی ہمکو
ہم نے ہر طور سے پیمان نبھا کر دیکھا

بھول بھی جو اب تو زمانے کے ستم اب تو جبیں
ہنسنے والومن نے تمہیں کتنا ستا کر دیکھا



سید تصور حسن تصور : درد میں ڈوبی ہوئی ایک داستان ہے زندگی

درد میں ڈوبی ہوئی ایک داستان ہے زندگی
لڑ کھڑاتی حسرتوں کا کارواں ہے زندگی

ہر گھڑی ہے تلخیوں کی دھول چہرے پر اٹی
آج کے انسان پر کتنی گراں ہے زندگی

کس طرح ہموار ہونگے درد کے یہ فاصلے
جب سکوں جاوداں کے درمیان ہے زندگی

جل رہی ہیں نفرتوں کی آگ میں اہل وفا
الفتوں کی لاش پر ماتم کناں ہے زندگی

لٹ رہا ہے آج اہل علم و فن کا بھی وجود
انسانیت کے نام پر بار گراں ہے زندگی

جذبۂ احساس کے فقدان کا ماتم نہ کر
درد دل کے واسطے ملتی خان ہے زندگی



عاصی گیلانی : قسمت میں حادثہ جو لکھا تھا وہ ہو گیا

قسمت میں حادثہ جو لکھا تھا وہ ہو گیا
میرے وجود میں تو کوئی کرب ہو گیا

وہ پھول ایسا شخص تھا کس درجہ سنگ دل
چھپ چاپ فصل خار مرے دل میں بو گیا

ایک میں کہ اسکے غم میں برابر کا تھا شریک
ایک وہ کہ کھل کے اپنی تباہی پی رو گیا

سورج نے مجھ کو وقت شر یہ صلہ دیا
نکلا تو میرے جسم میں کرنیں چبھو گیا

مگر شہر کے ہجوم سے راہ خضر ملی
آیا جو گھر تو بھیڑ میں بچوں کی کھو گیا

چڑھتے ہی دھوپ رزق کی نکلا تلاش میں
ہوتے ہی شام یاد کے جنگل میں کھو گیا

کل تک تو میرے ساتھ ،اب کیا بتاؤں میں
کس شہر سے چلا تھا وہ کس دشت کو گیا

آنکھیں کھلی تو قلب میں بکھرا ہوا تھا نور
ایک نیکیوں کا ہاتھ گناہوں کو دھو گیا



سردار شیزاد نواز : لکھتا ہوں کوئی شعر میں جب خون جگر سے

لکھتا ہوں کوئی شعر میں جب خون جگر سے
پتھر بھی پگھلتے ہوئے پاتا ہوں اثر سے

شاید کبھی اپنایا تھا میں نے بھی کسی کو
جاتا نہیں ایک عکس سا کیوں قلب نظر سے

بس اتنی خبر ہے کہ ہمیں کر گیا برباد
آیا تھا کوئی شخص خدا جانے کدھر سے

دو چار برس میرے بھی گزرے ہیں وہاں پر
وابستہ ہیں یادیں میری ظالم کے نگر سے

یہ حکم ہے اس بادشاہ حسن کا یاروں
دیوانوں سے کہ دو کہ وہ گزرن نہ ادھر سے

ہر رنگ میں ہر حل میں کیوں دیکھیں ترا روپ
چھپ جائے یہ گستاخ ، میں کہتا ہوں قمر سے

شہزاد بڑی در کے بعد آنکہ کھلی ہے
اجڑا ہوا نکلا ہوں محبت کے شہر سے



نصیر احمد ناصر : دل سے میرے وہ ستم گر نکلا

دل سے میرے وہ ستم گر نکلا
آئنہ توڑ کے پتھر نکلا

اس کی آنکھوں میں کنارہ تھا کوئی
ڈھونڈنے جس کو سمندر نکلا

تو اگر خواب تھا میرا تو بتا!
کیوں مری نیند سے باہر نکلا

منزلیں ہاتھ کی دوری پہ رہیں
راستہ پاؤں کا چکر نکلا

پھر ہوئی قید کوئی شہزادی
پھر حویلی سے کبوتر نکلا

ایک دل تھا کہ سرشام بجھا
ایک آنسو تھا کہ جل کر نکلا

زلزلے مجھ میں کچھ ایسے آئے
اک جزیرہ مرے اندر نکلا

دیکھتی رہ گئیں آنکھیں ناصر
ایسا منظر پس منظر نکلا


خالد احمد : ترک تعلقات پے رویا ، نا تو ، نا میں

ترک تعلقات پے رویا ، نا تو ، نا میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نا تو، نا میں

حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نا تو ، نا میں

ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لب گویا نا تو ، نا میں

نوح فصیل ضبط سے اونچے نا ہو سکے
کھل کر دیر سنگ میں رویا نا تو ، نا میں

جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی
برگشتہ آسمان سے گویا نا تو ، نا میں



حبیب جالب : اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے

اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں ، یہی بات بڑی بات ہے پیارے

یہ ہنستا ہوا چاند ، یہ پر نور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارمان ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

ہر صبح ، میری صبح پے روتی رہی شبنم
ہر رات میری رات پے ہنستے رہے تارے

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں آے غم جاناں
کب تک کوئی الجھی ہی زلفوں کو سنوارے


ثناء اللہ ظہیر : دل ' کہ ویران ' اسے اور بھی ویران کیا

دل ' کہ ویران ' اسے اور بھی ویران کیا
یوں تیرے ہجر کی تکمیل کا سامان کیا

روشنی دیکھ کے بے وقت پرندے جاگے
پھر پرندوں نے میرے خواب کا نقصان کیا

شہر کی آگ ہوئی سرد ' تو میں نے ' اپنی
راکھ سے اٹھ کے نئی جنگ کا اعلان کیا

گرد اس شہر کی روشن میرے ماتھے پہ ہوئی
پھر میرے عکس نے آئینے کو حیران کیا

موت کے پار اترنا بڑا مشکل تھا ظہیر
میرے دشمن نے میرا راستہ آسان کیا


ثناء اللہ ظہیر : اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر
ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ
سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر
میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں


فراق گورکھ پوری : بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے آے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
تو ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

؂ہم آہنگی بھی ایک چاشنی ہے اختلافوں کی
مری باتیں بعنوان دگر وہ ماں لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتا دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

ز رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے
تیرا آے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

فراق اکثر بدل کر بھس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں



خواجہ رضی حیدر : مکیں سے کہنے لگا اک مکاں کا سناٹا

مکیں سے کہنے لگا اک مکاں کا سناٹا
ہے تیرے دم سے سلامت یہاں کا سناٹا

بہار اپنی حکایت سے آشنا ہی نہیں۔
خزاں کے ساتھ کھڑا ہے خزاں کا سناٹا۔

ہجومِ کار میں اب یاد ہی نہیں رہتا
کہ دل کو کھینچ رہا ہے کہاں کا سناٹا

نہ جانے کونسی جانب نکل گئے طائر
چہک رہا ہے بہت آشیاں کا سناٹا۔


قتیل شفائی : نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے

نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے
اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے

کیا ملے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے

سب نے پہنا تھا بڑے شوق سے کاغذ کا لباس
جس قدر لوگ تھے بارش میں نہانے والے

مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے

در و دیوار پہ حسرت سی برستی ھے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے


قتیل شفائی : ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو

خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو

گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو

یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو

انسان کا اگر قدوقامت نہ بڑھ سکے
تم اِس کو نقصِ آب و ہوا کہہ لیا کرو

اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجات ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو

لے دے کے اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیل
جب دِل جلے تو اُس کو دیا کہہ لیا کرو


خواجہ حیدر علی آتش : آئینہ خانہ کرینگے دل ناکام کو ہم

آئینہ خانہ کرینگے دل ناکام کو ہم
پھریں گے اپنی طرف روے دل آرام کو ہم

شام سے صبح تلک دور شراب آخر ہے
روتے ہیں دیکھ کے خنداں دہن جام کو ہم

یاد رکھنے کی جگہ ہے یہ طلسم حیرت
صبح کو دیکھتے ہی بھول گے شام کو ہم

آنکھ وہ فتنۂ دوران کسے دکھلاتا ہے
شعبدہ جانتے ہیں گردش ایام کو ہم

خون قاتل کو وہ سفاک سمجھتا ہے حلال
کسی غماز سے بھجواہیں گے پیغام کو ہم

پاؤں پکڑے ہیں زمین نے یہ تیرے کوچہ کی
رہ صد سالہ سمجھتے ہیں اب ایک گام کو ہم

کوچہ یار میں اپنا جو گزر ہوتا ہے
نگران رہتے ہیں حسرت سے در و بام کو ہم

حسن سے عشق کی خاطر ہے خدا نے بھیجا
کرتے ہیں آتش ، اسے آے ہیں جس کام کو ہم



پروین شاکر : آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا

آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ
کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا

کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا
کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا

واں شہر ڈُوبتے ہیں ، یہاں بحث کہ اُنہیں
خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا

کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا

طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا

غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا

اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
’’مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا


نواز دیو بندی : کرنے کو تو ہر بات کو ہم یاد کرینگے

کرنے کو تو ہر بات کو ہم یاد کرینگے
پر تجھ کو بہت تیری قسم یاد کرینگے

جس سر کی تیرے شہر میں توہین ہوئی ہے
اس سر کو تیرے نقش قدم یاد کرینگے

غیروں کو تو کیا رنج میری موت کا ہوگا
احباب بھی دو چار قدم یاد کرینگے

اپنو کی عنایت کا یہی حال رہا ہے
ہم اپنے رقیبوں کے ستم یاد کرینگے

آ جایں گی ایک روز ہمیں راس جفایں
کچھ روز مگر تیرے ستم یاد کرینگے

تقدیر ہمیں لاکھ مسرت سے نوازے
ہم آپکے بخشے ہوئے غم یاد کرینگے



ریحانہ قمر : میں نہیں بولتی

کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی
جا او جھوٹی ہوا میں نہیں بولتی

چھوڑ دے میری دہلیز کو چھوڑ دے
تجھ سے کہ جو دیا، میں نہیں بولتی

مجھ سے اب میٹھے لہجے میں باتیں نہ کر
میرا دل بجھ چکا میں نہیں بولتی

مجھ کو معلوم ہے جتنی اچھی ہوں میں
اب نہ باتیں بنا میں نہیں بولتی

اب کسی چال میں مَیں نہیں آؤں گی
چاہے قسمیں اُٹھا میں نہیں بولتی

یہ جو اِک مور سا میرے آنگن میں ہے
جب نہیں بولتا میں نہیں بولتی

میرے پاؤں سے دھرتی کھسکنے لگی
جب بھی ماں نے کہا میں نہیں بولتی

پہلے اس کے لئے سب سے لڑتی پھری
پھر اسے کہ دیا میں نہیں بولتی

اب صفائی کا موقع نہ دوں گی اسے
جو ہوا سو ہوا میں نہیں بولتی


Saturday, April 2, 2011

احمد فراز : اک سنگ تراش جس نے برسوں

اک سنگ تراش جس نے برسوں
ہيروں کي طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے ميں تنہا
مجبور نڈھال زخم خوردہ
دن رات پڑا کراہتا ہے
چہرے اجاڑ زندگي
لمحات کي ان گنت خراشيں
آنکھوں کے شکتہ مرکدوں ميں
روٹھي ہوئي حسرتوں کي لاشيں
سانسوں کي تھکن بدن کي ٹھنڈک
احساس سے کب تلک لہو لے
ہاتھوں ميں کہا سکت کہ بڑھ کر
خود ساختہ پيکروں کے جھولے
يہ زخم طلب يہ نامرادي
ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم
اے تيشہ بد ست ديوتائو
انسان جواب چاہتا ہے

احمد فراز : چھيڑے کبھي ميں نے لب و رخسار کے قصے

چھيڑے کبھي ميں نے لب و رخسار کے قصے
گا ہےگل و بلبل کي حکايات کو نکھارا

گا ہے کسي شہزادے کے افسانے سنائے
گا ہے کيا دنيائے پرستاں کا نظارا

ميں کھويا رہا جن و ملائک کے جہاں ميں
ہر لحظہ اگر چہ مجھے آدم نے پکارا

احمد فراز : کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے

کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دُکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تیرے جستجو کرے

اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے

تجھ کو بھُلا کے دل ہے وہ شرمندہ ء نظر
اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز
دنیا تو عرض ِ حال سے بے آبرو کرے

احمد فراز : قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے

ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت ِ شہر تو رونے کے بہانے مانگے

یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیئے
اب یہی ترک ِ تعلق کے بہانے مانگے

زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے

دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان ِ فراز
مِل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے

احمد فراز : میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعہ ء فال مرے نام کا اکثر نکلا

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں نے اس جان ِ بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول میری شاخِ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا

احمد فراز : کل رات ہم سخن کوئی بُت تھا خدا کہ میں

کل رات ہم سخن کوئی بُت تھا خدا کہ میں
میں سوچ ہی رہا تھا کہ دل نے کہا کہ میں

تھا کون جو گرہ پہ گرہ ڈالتا رہا
اب یہ بتا کہ عقدہ کشا تُو ہوا کہ میں

جب سارا شہر برف کے پیراہنوں میں تھا
ان موسموں میں لوگ تھے شعلہ قبا کہ میں

جب دوست اپنے اپنے چراغوں کے غم میں تھے
تب آندھیوں کی زد پہ کوئی اور تھا کہ میں

جب فصل ِ گل میں فکر ِ رفو اہل ِ دل کو تھی
اس رُت میں بھی دریدہ جگر تُو رہا کہ میں

کل جب رُکے گا بازوئے قاتل تو دیکھنا
اے اہل ِ شہر تم تھے شہید ِ وفا کہ میں

کل جب تھمے گی خون کی بارش تو سوچنا
تم تھے عُدو کی صف میں سر ِ کربلا کہ میں

احمد فراز : کٹھن ہے راہگذر تھوڑی دور ساتھ چلو

کٹھن ہے راہگذر تھوڑی دور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر،تھوڑی دور ساتھ چلو

تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
یہ جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو

نشے میں چور ہوں میں بھی تمہیں بھی ہوش نہیں
بڑا مزا ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو

یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے
کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ چلو

ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے
ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو

طواف منزل ِ جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو