Tuesday, March 5, 2013

ساغر صدیقی : دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں

دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

زردار توقّع رکھتا ھے نادار کی گاڑھی محنت پہ؟؟؟
مزدور یہاں بھی دیوانے ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں

کچھ لوگ بھروسہ کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں انسان یہاں بھی اندھے ہیں

بے نام جفا کی راہوں پر کچھ خاک سی اڑھتی دیکھی ھے
حیران ہیں دلوں کے آئینے نادان یہاں بھی اندھے ہیں

بے رنگ شفق سی ڈھلتی ھے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصوّر بھوکا ھے سلطان یہاں بھی اندھے ہیں

ساغر صدیقی : رُودادِ محبّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

رُودادِ محبّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

ساغر صدیقی : میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست

میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست
سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست

مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست

ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست

دوچار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
دوچار دن کے پیار کا قائل نہیں ہُوں دوست

جس کی جھلک سے ماند ہو اشکوں کی آبُرو
اس موتیوں کے ہار کا قائل نہیں ہُوں دوست

لایا ہُوں بے حساب گناہوں کی ایک فرد
محبوب ہُوں شمار کا قائل نہیں ہُوں دوست

ساغر بقدرِ ظرف لُٹاتا ہُوں نقدِ ہوش
ساقی سے میں ادُھار کا قائل نہیں ہوں دوست

ساغر صدیقی : بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

گُم صُم کھڑی ہیں‌دونوں جہاں کی حقیقتیں
میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغر صدیقی : محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا

محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دَم توڑدیا

آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑدیا

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
اُن محبّت کی روایات نے دم توڑدیا

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا

ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑدیا

ساغر صدیقی : پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے

پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دئیے

نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دئیے
غنچہ کسی نے شاخ سےتو ڑا تورو دئیے

اڑتا ہوا غبار سر راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دئیے

بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دئیے

رنگ شفق سے آگ شگوفوں میں لگ گئی
سا غر ہمارے ہاتھ سے چھلکا تو رو دئیے

ساغر صدیقی : نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا

نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا
اب درد دل علاج و دوا سے گزر گیا

ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقام صورت و صدا سے گزر گیا

اعجاز بے خودی ہے کہ یہ حسن بندگی
اک بت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا

انصاف سیم و زر کی تجلی نے ڈس لیا
ہر جرم احتیاج سزا سے گزر گیا

الجھی تھی عقل و ہوش میں ساغر رہ حیات
میں لے کے تیرا نام فنا سے گزر گیا

ساغر صدیقی : کب سماں تھا بہار سے پہلے

کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں ‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے

ساغر صدیقی : بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے

بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ ﷺ آئے

ایک پیغام ، جو ہو دل میں اُجالا کردے
ساری دُنیا کو سُنانے کے لیے آپ ﷺ آئے

ایک مدّت سے بھٹکتے ہوئے انسانوں کو
ایک مرکز پہ بلانے کے لیے آپ ﷺ آئے

ناخدا بن کے اُبلتے ہوئے طوفانوں میں
کشتیاں پار لگانے کے لیے آپ ﷺ آئے

قافلہ والے بھٹک جائیں نہ منزل سے کہیں
دُور تک راہ دکھانے کے لیے آپ ﷺ آئے

چشمِ بید کو اسرارِ خدائی بخشے
سونے والوں کو جگانے کے لیے آپ ﷺ آئے

ساغر صدیقی : محمد ﷺ باعثِ حُسن جہاں ایمان ہے میرا

محمد ﷺ باعثِ حُسن جہاں ایمان ہے میرا
محمد ﷺ حاصلِ کون و مکاں ایمان ہے میرا

محمد ﷺ اوّل و آخر محمد ﷺ ظاہر و باطن
محمد ﷺ ہیں بہر صورت عیاں ایمان ہے میرا

شرف اِک کملی والے نے جنہیں بخشا ہے قدموں میں
وہ صحرا بن گئے ہیں گلستاں ایمان ہے میرا

محبت ہے جسے غارِ حرا میں رونے والے سے
وہ انساں ہے خدا کا رازداں ایمان ہے میرا

 معطّر کر گئے ساغرؔ فضائے گلشنِ ہستی
نبی ﷺ کے گیسوئے عنبر فشاں ایمان ہے میرا

ساغر صدیقی : جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسول ﷺ کی

جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسول ﷺ کی
کرتے ہیں مہر و ماہ اطاعت رسول ﷺ کی

ایمان ایک نام ہے حُبِّ رسول ﷺ کا
ہے خُلد کی بہار محبت رسول ﷺ کی

نوکِ مژہ پہ جن کی رہے اشکِ کربلا
پائیں گے حشر میں وہ شفاعت رسول ﷺ کی

غارِ حِرا کو یاد ہیں سجدے رسول ﷺ کے
دیکھی ہے پتھروں نے عبادت رسول ﷺ کی

دامانِ عقل و ہوش سہارا نہ دے مُجھے
چاہت خدا کی بن گئی چاہت رسول ﷺ کی

ساغرؔ تمام عالم ہستی ہے بے حجاب
آنکھوں میں بس رہی ہے وہ خلوت رسول ﷺ کی

ساغر صدیقی : سرمایہ حیات ہے سِیرت رسول ﷺ کی

سرمایہ حیات ہے سِیرت رسول ﷺ کی
اسرارِ کائنات ہے سِیرت رسول ﷺ کی

پُھولوں میں ہے ظہُور ستاروں میں نُور ہے
ذاتِ خُدا کی بات ہے سِیرت رسول ﷺ کی

بنجر دِلوں کو آپ نے سیراب کردیا
اِک چشمہ صفات ہے سِیرت رسول ﷺ کی

چشمِ کلیم ایک تجلّی میں بِک گئی
جلووں کی واردات ہے سیرت رسول ﷺ کی

جور و جفا کے واسطے برقِ ستم سہے
دُنیائے التفات ہے سیرت رسول ﷺ کی

تصویر زندگی کو تکلّم عطا کیا
حُسنِ تصّورات ہے سیرت رسول ﷺ کی

ساغرؔ سرور و کیف کے ساغر چھلک اُٹھے
صبحِ تجلّیات ہے سیرت رسول ﷺ کی

ساغر صدیقی : فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا

نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
جُنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے سب اچھا

دیارِ ماہ میں تعمیر مَے کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے سب اچھا

قفس میں یُوں بھی تسلّی بہار نے دی ہے
چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی ہے سب اچھا

وہ آشنائے حقیقت نہیں تو کیا غم ہے
حدیثِ نامہ بَری کہہ رہی ہے سب اچھا

تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا

حیات و موت کی تفریق کی کریں ساغرؔ
ہماری شانِ خودی کہہ رہی سب اچھا

ساغر صدیقی : چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ! بڑا اندھیرا ہے

فراز عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارہ
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ! بڑا اندھیرا ہے

بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے
مجھے یقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

جسے زبان خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

بنام زہرہ جبینانِ خطّہء فردوس
کسی کرن کو جگاؤ! بڑا اندھیرا ہے

ساغر صدیقی : کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہُوا

کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہُوا
اشک بھی حرفِ مُدّعا نہ ہُوا

تلخی درد ہی مقدّر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہُوا

ماہتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہُوا

آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا

وہ شہنشہ نہیں، بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہُوا

رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہُوا

ڈوبنے کا خیال تھا ساغرؔ
ہائے ساحل پہ ناخُدا نہ ہُوا

ساغر صدیقی : چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو

چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو
 عید آئی ہے بہاروں کی ردائیں سی لو

چشم ساقی سے کہو تشنہ اُمیدوں کے لیے
تُم بھی کچھ بادہ گُساروں کی ردائیں سی لو

ہر برس سوزن تقدیر چلا کرتی ہے
اب تو کُچھ سینہ فگاروں کی ردائیں سی لو

لوگ کہتے ہیں تقدس کے سُبو ٹوٹیں گے
جُھومتی رہگزاروں  کی ردائیں سی لو

قلرم خُلد سے ساغر کی صدا آتی ہے
اپنے بے تاب کناروں کی ردائیں سی لو

ساغر صدیقی : زخم دل پُر بہار دیکھا یے

زخم دل پُر بہار دیکھا یے
کیا عجب لالہ زار دیکھا یے

جن کے دامن میں کچھ نہیں یوتا
ان کے سینوں میں پیار دیکھا یے

خاک اُڑتی یے تیری گلیوں میں
زندگی کا وقار دیکھا یے

تشنگی یے صدف کے یونٹوں پر
گل کا سنیہ فگار دیکھا یے

ساقیا! اہتمام بادہ کر
وقت کو سوگور دیکھا یے

جزبہ غم کی خیر ہو ساغر
حسرتوں پر نکھار دیکھا یے

ساغر صدیقی : ذرا کُچھ اور قُربت زیرِ داماں لڑ کھڑاتے ہیں

ذرا کُچھ اور قُربت زیرِ داماں لڑ کھڑاتے ہیں
مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں

تخیّل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصّور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں

قرارِ دین و دُنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہے
سہارے دیکھ کر زُلفِ پریشاں لڑکھڑاتے ہیں

تیری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنامِ ہوش مدہوشی کے عُنواں لڑکھڑاتے ہیں

سُنو! اے عِشق میں توقیرِ ہستی ڈھونڈنے والو
یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں

تمہارا نام لیتا ہُوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں

کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ جن کی جنبشِ اَبرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں

یقینا حشر کی تقریب کے لمحات آپہنچے
قدمِ ساغرؔ قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں

ساغر صدیقی : چاکِ دامن کو جو دیکھا تو مِلا عید کا چاند

چاکِ دامن کو جو دیکھا تو مِلا عید کا چاند
اپنی تقدیر کہاں بُھول گیا عید کا چاند

اُن کے اَبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُھپا عید کا چاند

جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اُٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا عید کا چاند

دُور ویران بسیرے میں دِیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عِید کا چاند

لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے
آج بھی خُلد کی رنگین فضا عید کا چاند

تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر دَرد کے ماروں نے پیا عید کا چاند

چشم تو وُسعتِ افلاک میں کھوئی ساغرؔ
دِل نے اِک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند

ساغر صدیقی : ہَر شے ہے پُر ملال بڑی تیز دُھوپ ہے

ہَر شے ہے پُر ملال بڑی تیز دُھوپ ہے
ہَر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دُھوپ ہے

چکرا کے گِر نہ جاؤں میں اِس تیزُ دھوپ میں
مُجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دُھوپ ہے

دے حکم بادلوں کو خیابان نشین ہُوں
جام و سبُو اُچھال بڑی تیز دُھوپ ہے

ممکن ہے ابرِ رحمت یزداں برس پڑے
زُلفوں کی چھاؤں ڈال بڑی تیز دُھوپ ہے

اب شہر آرزُو میں وہ رعنائیاں کہاں
ہیں گلُ کدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے

سمجھی ہے جس کو سائیہ اُمّید عقلِ خام
ساغرؔ کا ہے خیال بڑی تیز دُھوپ ہے

ساغر صدیقی : دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں

دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں
بادہ خانوں کی خبر رکھتے ہیں

خارزاروں سے تعلق ہے ہمیں
گُلستانوں کی خبر رکھتے ہیں

ہم اُلٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب
ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں

اُن کی گلیوں کے مکینوں کی سُنو
لا مکانوں کی خبر رکھتے ہیں

چند آوارہ بگولے اے دوست
کاروانوں کی خبر رکھتے ہیں

زخم کھانے کا سلیقہ ہو جنہیں
وہ نشانوں کی خبر رکھتے ہیں

کُچھ زمینوں کے ستارے ساغرؔ
آسمانوں کی خبر رکھتے ہیں

ساغر صدیقی : وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گی

وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گی
اِک تیرے وصل کی گھڑی ہو گی

دستکیں دے رہی ہے پَلکوں پر
کوئی برسات کی جَھڑی ہو گی

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پُھول کی ایک پنکھڑی ہو گی

زُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی

اے عدم کے مسافرو! ہُشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی

کیوں گِرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کِسی پھول کی اَڑی ہو گی

التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے دَر پر کہیں پڑی ہو گی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی

ساغر صدیقی : چمن لُٹ رہا ہے صبا رو رہی ہے

چمن لُٹ رہا ہے صبا رو رہی ہے
پئے سوگواراں فضا رو رہی ہے

شہادت پہ اکبرؓ کی ساری خدُائی
گریباں کُھلے ہیں وفا رو رہی ہے

فرشتے سر عرش ماتم کناں ہیں
کہ پیاسوں کی خاطر گھٹا رو رہی ہے

ذرا خاک کربل کی توقیر دیکھو
کہ بنت نبی ْ کی ردا رو رہی ہے

وہ شبیرؓ  آئے ہیں نیزے کی زد پر
تڑپتی ہیں کر نیں‘ ضیا رو رہی ہے

بہاروں کے ہیں چاک دامان یارو
ہے نغموں کا ماتم‘ نوا رو رہی ہے

ہے تیرا جفا اور حلقوم اصغرؓ
جفاؤں پہ ساغر جفا رو رہی ہے

ابنِ انشاء : لب پر کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے

لب پر کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے
اے تصویر بنانے والی، جب سے تجھ کو دیکھا ہے

بے ترے کیا وحشت ہم کو، تجھ بن کیسا صبر و سکوں
تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے

نیلے پربت، اودی دھرتی، چاروں کوٹ میں تو ہی تو
تجھ سے اپنے جی خلوت، تجھ سے من کا میلا ہے

آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا
یوسف تو بازار وفا میں ایک ٹکے کو بکتا ہے

لے جانی اب اپنے من کے پیراہن کی گرہیں کھول
لے جانی اب آدھی شب ہے چار طرف سناٹا ہے

طوفانوں کی بات نہیں ہے، طوفاں آتے جاتے ہیں
تو اک نرم ہوا کا جھونکا، دل کے باغ میں ٹھہرا ہے

یا تو آج ہمیں اپنا لے یا تو آج ہمارا بن
دیکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جیتا ہے

فردا محض فسوں کا پردا، ہم تو آج کے بندے ہیں
ہجر و وصل وفا اور دھوکا سب کچھ آج پہ رکھتا ہے

ابنِ انشاء : کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا

کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا
کچھ نے کہا يہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تيرا

ہم بھي وہيں موجود تھے ہم سے بھي سب پوچھا کيے
ہم ہنس دئيے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تيرا

اس شہر ميں کس سے مليں، ہم سے چھوٹيں محفليں
ہر شخص تيرا نام لے، ہر شخص ديوانہ تيرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
الطاف کي بارش تيري، اکرام کا دريا تيرا

ہم پر يہ سختي کي نظر ہم ہيں فقير رہگزر
رستہ کبھي روکا تيرا دامن کبھي تھاما تيرا

ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا

بے درد سنني ہوتو چل کہتا ہے کيا اچھي غزل
عاشق تيرا، رسوا تيرا، شاعر تيرا، انشا تيرا

ابنِ انشاء : قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں درد ہو تم یا درماں ہو

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں درد ہو تم یا درماں ہو
دل میں تو آن بسے ہو لیکن مالک ہو یا مہماں ہو

دوری ، آگ سے دوری بہتر قربت کا انجام ہے راکھ
آگ کا کام فروزاں ہونا راکھ ضرور پریشاں ہو

سودا عشق کا سودا ہم جان کے جی کو لگایا ہے
عشق یہ صبر و سکوں کا دشمن پیدا ہو یا پنہاں ہو

عشق وہ آگ کہ جس میں تپ کر سونا کندن بنتا ہے
آگ میں تجھ کو کچھ نہیں ہو تو اس آگ میں بریاں ہو

شہر کے دشت کہو بھئی سادھو ہاں بھئی سادھو شہر دشت
ہم بھی چاک گریباں ٹھرے تم بھی چاک گریباں ہو

ابنِ انشاء : فقیر بن کر تم ان کے در پر ہزار دھونی رما کے بیٹھو

فقیر بن کر تم ان کے در پر ہزار دھونی رما کے بیٹھو
جبیں کے لکھے کو کیا کرو گے جبیں کا لکھا مٹا کے بیٹھو

اے ان کی محفل میں آنے والو اے سو دو سو دام بتانے والو
جو ان کی محفل میں آ کے بیٹھو تو ساری دنیا بھلا کے بیٹھو

بہت جتاتے ہو چاہ ہم سے مگر کرد گے نباہ ہم سے
ذرا ملاؤ نگاہ ہم سے ، ہمارے پہلو میں آ کے بیٹھو

جنوں پرانا ہے عاشقوں کا جو یہ بہانہ ہے عاشقوں کا
تو اک ٹھکانا ہے عاشقوں کا حضور جنگل میں جا کے بیٹھو

ہمیں دکھاؤ زرد چہرا ، لیے یہ وحشت کی گرد چہرا
رہے گا تصویر درد چہرا جو روگ ایسے لگا کے بیٹھو

جناب انشا یہ عاشقی ہے جناب انشا یہ زندگی ہے
جناب انشا جو ہے یہی ہے نہ اس سے دامن چھڑا کے بیٹھو

ابنِ انشاء : سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ رقیبوں نے

سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ رقیبوں نے
خطبے میں لیکن نام ہمیں لوگوں کا پڑھا خطیبوں نے

شب کی بساط ناز لپیٹو ، شمع کے سرد آنسو پونچھو
نقارے پر چوب لگا دی صبح کے نئے نقیبوں نے

کس کو خبر ہے رات کے تارے کب نکلے کب ڈوب گئے
شام و سحر کا پیچھا چھوڑا آپ کے درد نصیبوں نے

امن کی مالا جپنے والے جیالے تو خاموش رہے
فتح مبین کے جھنڈے گاڑے شہر بہ شہر صلیبوں نے

انشا جی اب آئے جو ہو دو بیت کہوا ور اٹھ جاؤ
تمہی کہو تمہیں شاعر ما نا کب سے بڑے ادیبوں نے

ابنِ انشاء : رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانےتھے

رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانےتھے
دھندلے دھندلے چہرے تھے، پر سب جانے پہچانے تھے

ضدّی، وحشی، الہڑ، چنچل، میٹھے لوگ رسیلے لوگ
ہونٹ ان کے غزلوں کے مصرعے، آنکھوں میں افسانے تھے

وحشت کا عنوان ہماری، ان میں سے جو نام بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے، انشاء جی دیوانے تھے

یہ لڑکی تو ان گلیوں میں روز ہی گھوما کرتی تھی
اس سے ان کو ملنا تھا تو اس کے لاکھ بہانے تھے

ہم کو ساری رات جگایا، جلتے بُجھتے تاروں نے
ہم کیوں ان کے در پر اُترے، کتنے اور ٹھکانے تھے

ابنِ انشاء : دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا

دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا
ایک ستارا بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا

آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے تو انکار کیا تھا، دل کب نا امید ہوا

آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی؟
لب پر اس کے نام تھا تیرا، جب بھی درد شدید ہوا

ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کو دریچے میں
جانو اک بجلی لہرائی، عالم ایک شہید ہوا

تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا، عرضِ وفا کی سنتے ہیں
پہے کون قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا

دنیا کے سب کارج چھوڑے، نام پہ تیرے انشاء نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے ? تیرا عشق مزید ہوا

ابنِ انشاء : دیکھ مری جاں کہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے، ہُو

دیکھ مری جاں کہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے، ہُو
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں کریں دوانے ہُو

جوگی بھی جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں

شاعر بھی جو میٹھی بالی بول کہ من کو ہرتے ہیں
بنجارے جو اونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

ان میں سچّے موتی بھی ہیں، ان میں کنکر پتھر بھی
ان میں اتھلے پانی بھی ہیں، ان میں گہرے ساگر بھی

گوری دیکھ کے آگے بڑھنا، سب کا جھوٹا سچّا، ہُو
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گھڑا تھا جس کا کچّا ہُو

ابنِ انشاء : جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا

جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا
کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا

کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن،رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن
جہان حُسن ملا وہاں بیٹھ گئے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا

شبِ ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا، کبھی بیت کہے ، لکھی چاندنگر
کبھی کوہ سے جاسر پھوڑ مرے، کبھی قیس کو جا استاد کیا

یہی عشق بالآخر روگ بنا، کہ ہے چاہ کے ساتھ بجوگ بنا
جسے بننا تھا عیش وہ سوگ بنا، بڑا مَن کے نگر میں فساد کیا

اب قربت و صحبتِ یار کہاں، اب و عارض و زلف و کنار کہاں
اب اپنا بھی میر سا عالم ہے، ٹک دیکھ لیا جی شاد کیا

ابنِ انشاء : انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا

اس دل کے دريدہ دامن میں، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا

شب بيتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجير پڑی دروازے پہ
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کيا

پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

اس حسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا

ابنِ انشاء : اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں، یاد رہے گا

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

کچھ میر کے ابیات تھے کچھ فیض کے نسخے
اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا

جاں بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو، یاد رہے گا، ہاں ہمیں یاد رہے گا

ابنِ انشاء : اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے

ہم اہل محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہل محبت کو آزاد جوانی ہے

ہاں چاند کے داغوں کو سینے میں بساتے ہیں
دنیا کہے دیوانا ۔۔۔ دنیا دیوانی ہے

اک بات مگر ہم بھی پوچھیں جو اجازت
کیوں تم نے یہ غم یہ کر پردیس کی ٹھانی ہے

سکھ لے کر چلے جانا ، دکھ دے کر چلے جا نا
کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہدیہ دل مفلس کا چھ شعر غزل کے ہیں
قیمت میں تو ہلکے ہیں انشا کی نشانی ہے

کشور ناہید : ہم کے ملغوبِ گماں تھے پہلے

ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
پھر وہیں ہیں کہ جہاں تھے پہلے

خواہشیں جھریاں بن کرابھریں
زخم سینے میں نہاں تھے پہلے

اب تو ہر بات پہ رو دیتے ہیں
واقفِ سود و زیاں تھے پہلے

دل سے جیسے کوئی کانٹا نکلا
اشک آنکھوں سے رواں تھے پہلے

اب فقط انجمن آرائی ہیں
اعتبارِ دل و جاں تھے پہلے

دوش پہ سر ہے کہ ہے برف جمی
ہم تو شعلوں کی زباں تھے پہلے

اب تو ہر تازہ ستم ہے تسلیم
حادثے دل پہ گراں تھے پہلے

میری ہمزاد ہے تنہائی میری
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے

کشور ناہید : بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے ؟

بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے ؟
اُس دل میں دردِ شوقِ تمنا کہاں سے آئے ؟

بے کار شرحِ لفظ و معنی سے فائدہ
جب تو نہیں تو شہر میں تُجھ سا کہاں سے آئے ؟

ہر چشم سنگِ خذب و عداوت سے سرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرانا کہاں سے آئے

وحشت حواس کی چاٹ گئی خاکِ جسم کو
بے در گھروں میں شاکی کا سایا کہاں سے آئے

جڑ سے اُکھڑ گئے تو بدلتی ُرتوں سے کیا
بے آب آئینوں میں سراپا کہاں سے آئے ؟

سایوں پہ اعتماد سے اُکتا گیا ہے جی
طوفاں میں زندگی کا بھروسہ کہاں سے آئے ؟

غم کے تھپیڑے لے گیا ناگن سے لمبے بال
راتوں میں جنگلوں کا وہ سایہ کہاں سے آئے ؟