Wednesday, June 22, 2011

حبیب جالب : یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں

یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں
یہ زندگی نصیب ہے لوگوں کو کم یہاں

کوشش کے باوجود بھلائے نہ جائیں گے
ہم پر جو دوستوں نے کئے ہیں کرم یہاں

کہنے کو ہمسفر ہیں بہت اس دیار میں
چلتا نہیں ہے ساتھ کوئی دو قدم یہاں

دیوار ِ یار ہو کہ شبستانِ شہرِ یار
دو پل کو بھی کسی کے نہ سائے میں تھم یہاں

نظمیں اداس اداس فسانے بُجھے بُجھے
مدت سے اشکبار ہیں لوح و قلم یہاں

اے ہم نفس یہی تو ہمارا قصور ہے
کرتے ہیں دھڑکنوں کے فسانے رقم یہاں

جمال احسانی : ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے

ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے

اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے

کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے

پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے

کیا اس سے ملاقات کا امکاں‌ بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے

آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے

نادم ہے بہت تو بھی جمال اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے

جمال احسانی : کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا

کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا
میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا

وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا

اگر میں کھڑکیا ں، دروازے بند کر لیتا
تو گھر کا بھید سرِ رہ گزر چلا جاتا

مرا مکاں مری غفلت سے بچ گیا ورنہ
کوئی چرا کے مرے بام و در چلا جاتا

تھکن بہت تھی مگر سایہء شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا

پروین شاکر : وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا

وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا
وہ رنگ رنگ میں اُترا، کرن کرن میں رہا

وہ نام حاصلِ فن ہوکے میرے فن میں رہا
کہ رُوح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا

سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل، کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا

وہ شہر والوں کے آگے کہیں مہذب تھا
وہ ایک شخص جو شہروں سے دُور بَن میں رہا

چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا

احمد فراز : برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا

برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا

ابرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا

خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا

پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا

اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
کچھ زہر میں بُجھا تھا احباب کا دلاسا

پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے
پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا

اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا

تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا

ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا

ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

جون ایلیا : وہی حساب تمنا ہے اب بھی آ جاؤ

وہی حساب تمنا ہے اب بھی آ جاؤ
وہی ہے سر وہی سودا ہے ، اب بھی آ جاؤ

جسے گئے ہوے خود سے ایک زمانہ ہوا
وہ اب بھی تم میں بھٹکتا ہے اب بھی آ جاؤ

وہ دل سے ہار گیا ہے پر اپنی دانست میں
وہ شخص اب بھی یگانہ ہے اب بھی آ جاؤ

میں خود نہیں ہوں کوئی اور ہے میرے اندر
جو تم کو اب بھی ترستا ہے اب بھی آجاؤ

میں یاں سے جانے ہی والا ہوں اب ، مگر اب تک
وہی ہے گھر وہی حجرہ ہے ، اب بھی آ جاؤ

وہی کشاکش احساس ہے با ہر لمحہ
وہی ہے دل وہی دنیا ہے ،اب بھی آ جاؤ

تمہیں تھا ناز بہت جسکی نام داری پر
وہ سارے شہر میں رسوا ہے اب بھی آ جاؤ

یاں سے ساتھ ہی خوابوں کے شہر جاینگے
وہی جنوں وہی صحرا ہے اب بھی آ جاؤ

میری شراب کا شہرہ ہے اب زمانہ میں
سو یہ کرم ہے تو کس کا ہے اب بھی آ جاؤ

یہ طور !جان جو ہے میری بد شرابی کا
مجھے بھلا نہیں لگتا ہے اب بھی آ جاؤ

کسی سے کوئی بھی شکوہ نہیں مگر تم سے
ابھی تلک مجھے شکوہ ہے اب بھی آ جاؤ

وہ دل کہ اب ہے لہو تھوکنا ہنر جسکا
وہ کم سے کم ابھی زندہ ہے ، اب بھی آ جاؤ

محسن نقوی : چلو چھوڑو

محبت جھوٹ ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
چلو چھوڑو
کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ
چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو
میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے
تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو
میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں کے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹی ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا

علامہ اقبال : برتر از اندیشہِ سود و زیاں ھے زندگی

برتر از اندیشہِ سود و زیاں ھے زندگی
ھے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ھے زندگی

تو اسے پیمانہِٴ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ھر دم جواں ھے زندگی

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ھے
سرِ آدم ھے ضمیرِ کن فکاں ھے زندگی

زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ھے زندگی

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ھے اک جوے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ھے زندگی

سرور عالم راز سرور : ابتدائے شوق کااعلانِ مستانہ ہوں میں

ابتدائے شوق کااعلانِ مستانہ ہوں میں
انتہائے عشق کا اظہارِ رندانہ ہوں میں

کھیل ہے دنیا کی ہر فرزانگی میرے لئے
اور ظالم یہ سمجھتی ہے کہ دیوانہ ہوں میں!

آشنائے حسن ہوں، مستِ ہوائے شوق ہوں
محفلِ اہلِ خرد میں ایک ہی دانا ہوں میں

وہ فغاں سینے میں گھٹ گھٹ کر جو آخر مر گئی
جو ادھورا رہ گیا ہونٹوں پہ، افسانہ ہوں میں

دیکھ یہ رنگِ خودی، دیوانہ دیوانوں میں ہوں
اور یہ بھی دیکھ، فرزانوں میں فرزانہ ہوں میں!

وہ حریم شوق اور خلوت کی وہ نیرنگیاں
کیسی عالم ساز یادوں کا صنم خانہ ہوں میں!

کوئی دن جاتا ہے محفل میں چھلک جاؤں گا میں
آبِ تلخِ زیست سے لبریز پیمانہ ہوں میں

یہ تما شا گاہِ عالم اور یہ میری بیخودی
کیا کہوں دنیا کی جب خود سے ہی بیگانہ ہوں میں

چھیڑتے ہیں کیوں مجھے یہ مے گسارانِ سخن؟
لاکھ بے قیمت ہوں پر معیارِ میخانہ ہوں میں!

یادِ ماضی بھی اِدھر آتے ہوئے گھبرائے ہے
کس قدر وحشت ہے، ویرانہ سا ویرانہ ہوں میں!

یاد آتا ہے مجھے سرور! سرِ دارِ خرد
وہ ترا کہنا کہ ”دیوانہ ہوں، دیوانہ ہوں میں

عبید اللہ علیم : غم کا علاج، دُکھ کا مداوا کرے کوئی

غم کا علاج، دُکھ کا مداوا کرے کوئی
جب خواب ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی

سو سلسلے خیال کے، سو رنگ خواب کے
کچھ سوچ کر کسی کی تمنّا کرے کوئی

بُجھتی نہیں ہے پیاس کہ جانے کہاں کی ہے
پیاسی زمیں پہ ابر سا برسا کرے کوئی

آؤں جو ہوش میں تو مئے بے خودی وہ دے
گرنے لگوں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی

یارانِ جان و دل کو کوئی جمع پھر کرے
جو بھی ہو جس کا حال، سنایا کرے کوئی

جب دل کو اشک و آہ کے ساماں نہ ہوں بہَم
اس بے کسی میں یاد نہ آیا کرے کوئی

کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر
دیتے ہیں پھر دُہائی کہ سایہ کرے کوئی

جو تِیرہ بخت ہے نہیں کھُلتی ہے اُس کی آنکھ
لاکھ آسماں سے روشنی لایا کرے کوئی

اس آدمی کے آپ مسیحا نہ ہوں اگر
کس میں ہے دم کہ اب اسے زندہ کرے کوئی

"ہے امن اس مکانِ محبت سرائے میں"
جب چاہے آئے شوق سے آیا کرے کوئی

وہ ہے طلسمِ خوابِ نظارہ کہ ایک بار
دیکھے اُسے تو بس اُسے دیکھا کرے کوئی

کر کے سپرد اک نگہۂِ ناز کو حیات
دنیا کو دین، دین کو دنیا کرے کوئی

چمکیں گے آسمانِ محبت پہ خود علیم
لفظوں کے ٹھیکروں کو ستارا کرے کوئی

عبید اللہ علیم : اک خواب ہے اور مستقل ہے

اک خواب ہے اور مستقل ہے
وہ شخص نہیں وہ میرا دل ہے

وہ رنگ ہے، نور ہے کہ خوشبو
دیکھو تو وہ کس قدر سجِل ہے

اے میرے بدن خبر ہے تجھ کو
تجھ سے مری روح متصّل ہے

جلتا تھا وہ اک چراغ تنہا
اب اس کا ظہور دل بہ دل ہے

کیا دل کو بہار دے گیا ہے
وہ زخم جو آج مندمل ہے

اک عالمِ وصل میں مسلسل
زندہ ہے وہ دل جو منفعل ہے

مظفر وارثی : شیشے میں چہرہ، چہرے پہ آنکھیں

شیشے میں چہرہ، چہرے پہ آنکھیں
آنکھوں کے پیچھے، سپنوں کا جنگل
جنگل میں دریا، دریا میں لہریں
لہروں پہ کشتی، کشتی میں ہلچل
جذبات نکھریں، جب مجھ پر بکھریں
چندا کی کرنیں، شاخوں کے سائے
اُجلے اندھیرے، ساتھی ہیں میرے
جینا بھی چاہوں، مرنا بھی آئے
میرا فسانہ، میری کہانی
کتنی ادھوری، کتنی مکمل
جتنے دِیے ہیں، میرے لیے ہیں
دل مجھ پر واریں، رنگین بہاریں
باغوں میں کلیاں، کلیوں میں خوشبو
خوشبو کے جھونکے، مجھ کو پکاریں
جھونکوں سے مل کر، آنگن میں دل کے
پگلی تمنا، ناچے مسلسل

جمال احسانی : سلوک ناروا کا اس لیے شکوہ نہیں کرتا

سلوک ناروا کا اس لیے شکوہ نہیں کرتا
کہ میں بھی تو کسی کی بات کی پرواہ نہیں کرتا

بہت ہوشیار ہوں اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں
میں دل کی بات کو دیوار پہ لکھا نہیں کرتا

اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا

زمیں پیروں سے کتنی بار ایک دن میں نکلتی ہے
میں ایسے حادثوں پہ دل مگر چھوٹا نہیں کرتا

تیرا اصرار سر آنکھوں پر تجھ کو بھول جانے کی
میں کوشش کر کے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا

عزیز وارثی : یہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے

یہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے
چمن میں راس نہ آئے گی بہار مجھے

تیری لطیف نگاہوں کی خاص جنبش نے
بنا دیا تیری فطرت کا رازدار مجھے

میری حیات کا انجام اور کچھ ہوتا
جو آپ کہتے کبھی اپنا جانثار مجھے

بدل دیا ہے نگاہوں نے رخ زمانے کا
کبھی رہا ہے زمانے پہ اختیار مجھے

یہ حادثات جو ہیں اضطراب کا پیغام
یہ حادثات ہی آئیں *گے سازگار مجھے

عزیز اہلِ چمن کی شکائت بے سود
فریب دے گی رنگینئی بہار مجھے

ناصر کاظمی : بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز

بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز
بلا رہی ہے ابھی تک وہ دل نشیں آواز

وہی دلوں میں تپش ہے، وہی شبوں میں گداز
مگر یہ کیا کہ مری زندگی میں سوز نہ ساز

نہ چھیڑ اے خلشِ درد، بار بار نہ چھیڑ
چھپاۓ بیٹھا ہوں سینے میں ایک عمر کا راز

بس اب تو ایک ہی دھن ہے کہ نیند آ جاۓ
وہ دن کہاں کہ اٹھائیں شبِ فراق کے ناز

گزر ہی جاۓ گی اے دوست تیرے ہجر کی رات
کہ تجھ سے بڑھ کے تےرا درد ہے مرا ہم ساز

یہ اور بات کہ دنیا نہ سن سکی ورنہ
سکوتِ اہلِ نظر ہے بجاۓ خود آواز

یہ بے سب نہیں شام و سحر کے ہنگامے
اٹھا رہا ہے کوئ پردہ ہاۓ راز و نیاز

ترا خیال بھی تیری طرح مکمّل ہے
وہی شباب، وہی دل کشی، وہی انداز

شراب و شعر کی دنیا بدل گئ لیکن
وہ آنکھ ڈھونڈ ہی لیتی ہے بے خودی کا جواز

عروج پر ہے مرا درد ان دنوں ناصر
مری غزل میں دھڑکتی ہے وقت کی آواز

سرور عالم راز سرور : بے نام ہوں، بے کار ہوں، بدنام نہیں ہوں

بے نام ہوں، بے کار ہوں، بدنام نہیں ہوں
شاعر ہوں مگر مستِ مئے خام نہیں ہوں

اک عمر ترے در پہ ہی سجدوں میں کٹی ہے
یہ کیسے کہا، واقفِ اسلام نہیں ہوں؟

اتنا نہ ستا، دیکھ! مجھے گردشِ دوراں
کمزور ہوں، شائستۂ آلام نہیں ہوں

مذہب ہے مرا عشق تو مسلک ہے محبت
”اس باب میں تو موردِ الزام نہیں ہوں“

دن رات جو ہیں مجھ پہ عنایاتِ مسلسل
اتنا تو بُرا اے غمِ ایام نہیں ہوں

!ہر اشک چراغِ شبِ اُمید ہے میرا
جو راہ تکے صبح کی وہ شام نہیں ہوں

آدابِ محبت سے ہوں واقف میں یقیناً
ہاں یہ ہے کہ پابندِ رہِ عام نہیں ہوں

کیا چھوڑ دوں دنیا کے لئے گوشہ نشینی؟
صد شکر ہے سرور کہ میں خود کام نہیں ہوں