Wednesday, June 22, 2011

ناصر کاظمی : بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز

بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز
بلا رہی ہے ابھی تک وہ دل نشیں آواز

وہی دلوں میں تپش ہے، وہی شبوں میں گداز
مگر یہ کیا کہ مری زندگی میں سوز نہ ساز

نہ چھیڑ اے خلشِ درد، بار بار نہ چھیڑ
چھپاۓ بیٹھا ہوں سینے میں ایک عمر کا راز

بس اب تو ایک ہی دھن ہے کہ نیند آ جاۓ
وہ دن کہاں کہ اٹھائیں شبِ فراق کے ناز

گزر ہی جاۓ گی اے دوست تیرے ہجر کی رات
کہ تجھ سے بڑھ کے تےرا درد ہے مرا ہم ساز

یہ اور بات کہ دنیا نہ سن سکی ورنہ
سکوتِ اہلِ نظر ہے بجاۓ خود آواز

یہ بے سب نہیں شام و سحر کے ہنگامے
اٹھا رہا ہے کوئ پردہ ہاۓ راز و نیاز

ترا خیال بھی تیری طرح مکمّل ہے
وہی شباب، وہی دل کشی، وہی انداز

شراب و شعر کی دنیا بدل گئ لیکن
وہ آنکھ ڈھونڈ ہی لیتی ہے بے خودی کا جواز

عروج پر ہے مرا درد ان دنوں ناصر
مری غزل میں دھڑکتی ہے وقت کی آواز

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔