Saturday, April 2, 2011

احمد فراز : اک سنگ تراش جس نے برسوں

اک سنگ تراش جس نے برسوں
ہيروں کي طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے ميں تنہا
مجبور نڈھال زخم خوردہ
دن رات پڑا کراہتا ہے
چہرے اجاڑ زندگي
لمحات کي ان گنت خراشيں
آنکھوں کے شکتہ مرکدوں ميں
روٹھي ہوئي حسرتوں کي لاشيں
سانسوں کي تھکن بدن کي ٹھنڈک
احساس سے کب تلک لہو لے
ہاتھوں ميں کہا سکت کہ بڑھ کر
خود ساختہ پيکروں کے جھولے
يہ زخم طلب يہ نامرادي
ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم
اے تيشہ بد ست ديوتائو
انسان جواب چاہتا ہے

احمد فراز : چھيڑے کبھي ميں نے لب و رخسار کے قصے

چھيڑے کبھي ميں نے لب و رخسار کے قصے
گا ہےگل و بلبل کي حکايات کو نکھارا

گا ہے کسي شہزادے کے افسانے سنائے
گا ہے کيا دنيائے پرستاں کا نظارا

ميں کھويا رہا جن و ملائک کے جہاں ميں
ہر لحظہ اگر چہ مجھے آدم نے پکارا

احمد فراز : کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے

کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دُکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تیرے جستجو کرے

اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے

تجھ کو بھُلا کے دل ہے وہ شرمندہ ء نظر
اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز
دنیا تو عرض ِ حال سے بے آبرو کرے

احمد فراز : قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے

ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت ِ شہر تو رونے کے بہانے مانگے

یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیئے
اب یہی ترک ِ تعلق کے بہانے مانگے

زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے

دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان ِ فراز
مِل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے

احمد فراز : میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعہ ء فال مرے نام کا اکثر نکلا

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں نے اس جان ِ بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول میری شاخِ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا

احمد فراز : کل رات ہم سخن کوئی بُت تھا خدا کہ میں

کل رات ہم سخن کوئی بُت تھا خدا کہ میں
میں سوچ ہی رہا تھا کہ دل نے کہا کہ میں

تھا کون جو گرہ پہ گرہ ڈالتا رہا
اب یہ بتا کہ عقدہ کشا تُو ہوا کہ میں

جب سارا شہر برف کے پیراہنوں میں تھا
ان موسموں میں لوگ تھے شعلہ قبا کہ میں

جب دوست اپنے اپنے چراغوں کے غم میں تھے
تب آندھیوں کی زد پہ کوئی اور تھا کہ میں

جب فصل ِ گل میں فکر ِ رفو اہل ِ دل کو تھی
اس رُت میں بھی دریدہ جگر تُو رہا کہ میں

کل جب رُکے گا بازوئے قاتل تو دیکھنا
اے اہل ِ شہر تم تھے شہید ِ وفا کہ میں

کل جب تھمے گی خون کی بارش تو سوچنا
تم تھے عُدو کی صف میں سر ِ کربلا کہ میں

احمد فراز : کٹھن ہے راہگذر تھوڑی دور ساتھ چلو

کٹھن ہے راہگذر تھوڑی دور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر،تھوڑی دور ساتھ چلو

تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
یہ جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو

نشے میں چور ہوں میں بھی تمہیں بھی ہوش نہیں
بڑا مزا ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو

یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے
کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ چلو

ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے
ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو

طواف منزل ِ جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو