Thursday, March 14, 2013

عدیم ہاشمی : تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے

تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے
محبتیں بھی ہیں اور درمیاں اَنا بھی ہے

یہ ٹھیک، تجھ کو شکایت بھی ہے، گلہ بھی ہے
تُو یہ بتا کہ تجھے میں نے کچھ کہا بھی ہے

کوئی بھی پُل ہو ، وہ دو ساحلوں پہ بنتا ہے
گر ایک دل ہے تِرا، ایک دل مِرا بھی ہے

یہ تیری بات ہے، آیت نہیں ، حدیث نہیں
کوئی تِرا تو کوئی میرا فیصلہ بھی ہے

پیالہ بھر تو لیا ہے جُدائی کا تُو نے
مجھے بتا کہ کبھی زہر یہ پیا بھی ہے؟

تعلقات کو اُتنا رکھا ہے، جتنے ہیں
قریب بھی ہے، مُناسب سا فاصلہ بھی ہے

ہوس کو چھانے دیا کم عدیم چاہت پر
کبھی کبھی یہ مگر واقعہ ہوا بھی ہے

عدیم ہاشمی : ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدہء تَر بھی


ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدہء تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی

بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی

پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی

درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدہء تر بھی

یہ شہرِِ جدائی ہے، اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی

کچھ پیاس ہے اُس حُسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حُسن کا پیاسا ہے مِرا حُسنِ نظر بھی

کیا عِشق ہے، کیا حُسن ہے، کیا جانیئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی

تُو چشمِ عنایت سے ذرا رُخ تو اِدھر کر
کافی ہے تِری ایک محبت کی نظر بھی

کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی

کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لیے ہے تو مِرے دل میں اُتر بھی

عدیم ہاشمی : فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا

فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا
پڑ گیا ہے دل پہ پہلے ہی نِشاں زنجیر کا

خط چُھپاؤں کِس طرح سے محرمِ دل گیِر سے
لفظ ہر اِک بولتا ہے پیار کی تحریر کا

باقی سارے خط پہ دھبے آنسوُؤں کے رہ گئے
ایک ہی جملہ پڑھا میں نے تِری تحریر کا

تیرے چہرے کا تاثر، تیری آنکھوں کا خُمار
حُسن ایسا تو نہیں ہے وادئ کشمیر کا

موتیوں جیسے ہیں آنسُو، پُھول جیسی ہے ہنسی
کونسا رُخ سامنے رکھوں تِری تصویر کا

کوئی کہتا ہے ملیں گے، کوئی کہتا ہے نہیں
کچھ پتا چلتا نہیں ہے خواب کی تعبیر کا

جو نصیبوں میں نہیں ہے، وہ ذرا لے لوں عدیم
وہ تو مل ہی جائے گا ، حصّہ ہے جو تقدیر کا

دوستوں سے بھی تعلق بن گیا ہے وہ عدیم
جو تعلق ہے کِسی شمشِیر سے شمشِیر کا

عدیم ہاشمی : کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف


کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف
مُنصِف تو ہو گیا ہے گنہگار کی طرف

معلُوم ہو تجھے کہ ہے دستِ بریدہ کیا
اُنگلی اُٹھا کے دیکھ مِرے یار کی طرف

قاتِل ہے حُسن اگر، تو ہے قاتِل کا کیا قصُور
خُود کِھنچ رہی ہیں گردنیں تلوار کی طرف

زَر کی کشش نے کھینچ لیا سارے شہر کو
بازار چل پڑے ہیں خریدار کی طرف

سارا جہاں کھڑا تھا ضرُورت کی چھاؤں میں
کوئی گیا نہ سایۂ دیوار کی طرف

سُوکھے ہوئے شجر پہ کوئی زخم بھی نہیں
پتھر بھی آئے نخلِ ثمر دار کی طرف

حیراں ہوں پھر بھی عکسِ رُخِ یار کِس طرح
جب آئینہ نہیں ہے رُخِ یار کی طرف

سب قبلہ رُو ہوئے تھے عبادت کے واسطے
میں نے کیا ہے رُخ تِری دیوار کی طرف

دھاگے میں کچھ پروئے ہوئے پُھول تھے عدیم
پہلے خزاں چلی ہے اُسی ہار کی طرف

عدیم ہاشمی : دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک


دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک
اپنی نظر ہی رہ گئی گرد و غبار تک

موسم بھی اپنی اپنی حدوں کے اِسیر ہیں
عہدِ خزاں ہے آمدِ فصلِ بہار تک

صحن خزاں میں پاؤں دھرے، کیا مجال ہے
فصلِ بہار قید ہے فصلِ بہار تک

معیاد قید ایک گھڑی پیش و کم نہیں
ممکن نہیں ہے قیدِ جہاں سے فرار تک

جو لکھ دیا جبیں پہ، اُسے لکھ دیا گیا
پابند اُس کے بعد ہے پرَوردگار تک

قسمت میں جو نہیں ہے، ملے گا وہ کِس طرح
ترک اِس لیے کِیا ہے تِرا اِنتظار تک

لکھا نہیں ہے وصل فقط کاتبین نے
تحریر ہو رہا ہے تِرا اِنتظار تک

اپنے کنوئیں ہیں جِن میں پُھدکتے ہیں سارے لوگ
محصُور ہیں عدیم سب اپنے حصار تک

عدیم ہاشمی : تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا


تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا
ڈُھونڈتے ہو کِس لیے کوئی سہارا دوسرا

تب کہیں سمجھا ہوں میں اُس کا اشارہ دوسرا
اُس نے میرے ہاتھ پر جب ہاتھ مارا دوسرا

اِتنی دُنیا، اِتنے چہرے، اِتنی آنکھیں چار سُو
اُس نے پھر بھی کر دیا مجھ کو اِشارہ دوسرا

آسماں پر کوئی تھوڑے سے سِتارے تو نہیں
ایک چمکے کم اگر، چُن لو سِتارہ دوسرا

مجھ کو تو پہلا کِنارہ بھی نظر آتا نہیں
ہے کہاں بحرِ فلک تیرا کِنارہ دوسرا

درمیاں پردہ رہا اِک دِن تکلف کا بہت
بھید سارا کُھل گیا جب دِن گزارا دوسرا

تب کہیں مہندی لگا وہ ہاتھ پہچانا گیا
اُس نے دَر کی اوٹ سے جب پُھول مارا دوسرا

جان دے دی اُس کے پہلے ہی اِشارے پر عدیم
میں نے دیکھا ہی نہیں اُس کا اِشارہ دوسرا

عدیم ہاشمی : اور ہے، اپنی کہانی اور ہے


اور ہے، اپنی کہانی اور ہے
داستاں اُس کو سُنانی اور ہے

میں تو سویا تھا ستارے اُڑھ کر
یہ رِدائے آسمانی اور ہے

ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اُس سمندر کا تو پانی اور ہے

پُھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اُس کی اِک عادت پُرانی اور ہے

اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے

اُس کے گھر کی اِک نشانی اور ہے

یُوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اِک عہدِ جوانی اور ہے

پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے

عدیم ہاشمی : اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا


اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا
وصل تھا یا وصال تھا، کیا تھا

عشق ماہی مثال تھا، کیا تھا
دل کے دریا میں جال تھا، کیا تھا

تم تو ایسے مجھے نہیں لگتے
یہ تمہارا خیال تھا، کیا تھا

کچھ سفید اور کچھ سیاہ تھے بال
میرا ماضی تھا، حال تھا، کیا تھا

نِیم وا چشم، نِیم وا سا دَہن
یہ سوالِ وصال تھا، کیا تھا

ایک تخلیق، ایک چشمِ حسیں
وہ غزل تھی، غزال تھا، کیا تھا

اِتنی بےچینیاں، خُدا کی پناہ
یہ مِرے دل کا حال تھا، کیا تھا

مِٹ گیا ایک اشک بہتے ہی
تِرے چہرے پہ خال تھا، کیا تھا

خُود کھنچے جا رہے تھے جِسم عدیم
لمحۂ اِتّصال تھا، کیا تھا

عدیم ہاشمی : مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا


مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا
بشر، آدمی سے خُدا ہو گیا

بھلا ہو گیا یا بُرا ہو گیا
چلو کوئی تو فیصلہ ہو گیا

وہ پہلے بھی جو بےوفا ہو گیا
یہ دل پھر اُسی پر فِدا ہو گیا

اُسی سے نظر پھر سے ٹکرا گئی
دوبارہ وہی حادثہ ہو گیا

یہاں دل دیا اور وہاں دل دیا
محبت تو کھیل آپ کا ہو گیا

جو ملِنے کے وعدے تھے، وعدے رہے
بِچھڑنے کا وعدہ وفا ہو گیا

وہ کیا تِیر ہے، جو نہ دل میں گڑے
نشانہ وہ کیا، جو خطا ہو گیا

دل و چشم یوں باد و بارَاں بنے
جو سُوکھا تھا جنگل، ہَرا ہو گیا

جو سِکہ کھرا تھا، وہ کھوٹا ہوا
جو کھوٹا تھا سِکہ، کھرا ہو گیا

یہ دل جو کہ میرا تھا، میرا نہیں
یہ دل آج سے آپ کا ہو گیا

جو باقی تھا ، باقی رہا وہ عدیم
جو فانی تھا، خُود ہی فنا ہو گیا

عدیم ہاشمی : فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں


فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا، کہاں پایا گیا ہوں

میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں

نہیں عرض و گزارش میرا شیوَہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں

بتا اے انتہائے حسنِ دنیا
میں بہکا ہوں کہ بہکایا گیا ہوں

مجھے یہ تو بتا اے شدتِ وصل
میں لِپٹا ہوں کہ لِپٹایا گیا ہوں

بدن بھیگا ہوا ہے موتِیوں سے
یہ کِس پانی سے نہلایا گیا ہوں

اگر جانا ہی ٹھہرا ہے جہاں سے
تو میں دُنیا میں کیوں لایا گیا ہوں

یہ میرا دل ہے یا تیری نظر ہے
میں تڑپا ہوں کہ تڑپایا گیا ہوں

مجھے اے مہرباں یہ تو بتا دے
میں ٹھہرا ہوں کہ ٹھہرایا گیا ہوں

تِری گلیوں سے بچ کر چل رہا تھا
تِری گلیوں میں ہی پایا گیا ہوں

جہاں روکی گئی ہیں میری کِرنیں
وہاں میں صورتِ سایہ گیا ہوں

عدیم اِک آرزُو تھی زِندگی میں
اُسی کے ساتھ دفنایا گیا ہوں

عدیم ہاشمی : اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی

اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی
بڑھتی ہے اِس طرح بھی محبت کبھی کبھی

پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اِس طرح
آئی ہے کام یُوں بھی ضرُورت کبھی کبھی

ہوتے ہیں قُربتوں میں بھی محشر کئی بپَا
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی

پھر ایک بےپناہ سی شِدت کے واسطے
قُربان ہم نے کی تری قُربت کبھی کبھی

یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا کوئی دل میں ہے
محسُوس کی نہیں تیری چاہت کبھی کبھی

یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا ہے ہی کچھ نہیں
دُنیا پہ چھا گئی تری صورت کبھی کبھی

وہ جس کو دیکھ دیکھ کے جی تنگ آ گیا
اچھی بہت لگی وہی صُورت کبھی کبھی

سچائی تو ہے یہ کہ زمانے کے حُسن میں
یاد آئی ہی نہیں تری صُورت کبھی کبھی

دُنیا کی اور بات ہے، دُنیا تو غیر ہے
ہوتی ہے اپنے آپ سے وحشت کبھی کبھی

سارا ہی وقت، سارے جہاں کے لیے عدیم
اپنے لئے بھی چاہیئے فُرصت کبھی کبھی

دُوری کبھی کبھی بڑی اچھی لگی عدیم
اچھی نہیں لگی ہمیں قُربت، کبھی کبھی

عدیم ہاشمی : زندگی جب جہان میں آئی

    زندگی جب جہان میں آئی
    جان دُنیا کی جان میں آئی

    جیسے آیا شباب کشتی پر
    یوں ہوا بادبان میں آئی

    سانولی سی کوئی دُلہن جیسے
    چھاؤں یوں سائبان میں آئی

    چاند ملنے لگا تھا تاروں سے
    چاندنی درمیان میں آئی

    بات اِک داستان سے نکلی
    دوسری داستان میں آئی

    تیِر اُتنا ہی دُور مار ہوا
    جِتنی سختی کمان میں آئی

    ہم وفا کے بغیر بھی خوش تھے
    کیوں وفا درمیان میں آئی

    تیرے وہم و گمان سے نِکلی
    میرے وہم و گمان میں آئی

    یا تو آتی نہ تھی سُخن کی پری
    آئی تو ایک آن میں آئی

عدیم ہاشمی : وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں


وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں
ٹکرائی بھی تو جا کے نظر سے نظر کہاں

جانا ہے تم کو جاؤ، چلے ہو مگر کہاں
میں ڈُھونڈتا پھروں گا تمہیں دَر بہ دَر کہاں

قصرشہی کی بات ہے قصر شہی کے ساتھ
تیری گلی کہاں ، تِرے دیوار و دَر کہاں

دولت سے خوابگاہ تو جو بھی خرید لو
نِیندیں مگر خرید سکے مال و زَر کہاں

تُو آگ ہی لگا کے ذرا خُود کو دیکھ لے
تجھ پر یوُنہی پڑے گی کِسی کی نظر کہاں

میں اپنا آپ ڈُھونڈ رہا ہوں جہان میں
مجھ کو عدیم اور کِسی کی خبر کہاں

یہ کِس مقابلے کے لیے جا رہے ہو تم
آنسو کہاں عدیم، صدف کا گہر کہاں

عدیم ہاشمی : عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا

    عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا
    میں یہ سمجھتا رہا، اُس نے ایک وار کِیا

    عدیم دل کو ہر اِک پر نہیں نِثار کِیا
    جو شخص پیار کے قابل تھا، اُس کو پیار کِیا

    پھر اعتبار کِیا، پھر سے اعتبار کِیا
    یہ کام اُس کے لیے ہم نے بار بار کِیا

    کِسی سے کی ہے جو نفرت تو اِنتہا کر دی
    کِسی سے پیار کِیا ہے تو بےشمار کِیا

    نہ تھی وصال کو بھی کچھ مداخلت کی مجال
    جب اِنتظار کِیا، صِرف اِنتظار کِیا

    اُمیدِ وصل شبِ ہجر کے سمندر میں
    یہی لگا ہے کہ تِنکے پہ اِنحصار کِیا

    بہت حسین ہوئیں بےوفائیاں اُس کی
    یہ اُس نے جان کے خُود کو وفا شعار کِیا

    اُتر گیا کوئی دل سے تو قبر میں اُترا
    اُسے سدا کے لیے شاملِ غُبار کِیا

    وہ اب مرے کہ جئے دل پہ کوئی بوجھ نہیں
    میں مطمئن ہوں کہ پہلے اُسی نے وار کِیا

    قصُور اُس کا نہیں ہے، قصُور میرا ہے
    عدیم مَیں نے اُسے پیار بےشمار کیا

عدیم ہاشمی : شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی


شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی

ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے
کیوں ملاقات عُمر بھر نہ ہوئی

اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے
کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی

تیری قُربت کی روشنی کی قسم
صُبح آئی مگر سحر نہ ہوئی

ہم نے کیا کیا نہ کر کے دیکھ لیا
کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی

کتنے سُورج نِکل کے ڈُوب گئے
شامِ ہجراں ! تری سحر نہ ہوئی

اُن سے محفل رہی ہے روز و شب
دوستی اُن سے عُمر بھر نہ ہوئی

یہ رہِ روزگار بھی کیا ہے
ایسے بچھڑے کہ پھر خبر نہ ہوئی

اِس قدر دُھوپ تھی جُدائی کی
یاد بھی سایۂ شجر نہ ہوئی

شبِ ہجراں ہی کٹ سکی نہ عدیم
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی

عدیم ہاشمی : گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم


گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کُھلی آنکھیں دیکھیں، اِک خواب ہو تم اِک خواب ہیں ہم

کیا محشر خیز جُدائی ہے، کیا وصل قیامت کا ہو گا
جذبات کا اِک سیلاب ہو تم، جذبات کا اِک سیلاب ہیں ہم

آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اِک ساون ہے اِک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر، اِس وقت بہت سیَراب ہیں ہم

اِس وقت تلاطم خیز ہیں ہم، گردش میں تمہیں بھی لے لیں گے
اِس وقت نہ تیَر اے کشتئ دل، اِس وقت تو خُود گردَاب ہیں ہم

اِک ہنس پرانی یادوں کا، بیٹھا ہوا کنکر چنُتا ہے
تپتی ہوئی ہجر کی گھڑیوں میں، سُوکھا ہوا اِک تالاب ہیں ہم

اے چشم فلک، اے چشم زمیں، ہم لوگ تو پھر آنے کے نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم

کیا اپنی حقیقت، کیا ہستی، مٹی کا ایک حباب ہیں ہم
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم

عبدالحمید عدم : خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں

خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں

ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو پو گی
ساغر کو ذرا تھام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں

پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں

ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادہ گلفام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں

حل کچھ تو نکل آئے گا حالات کی ضد کا
اے کثرت آلام میں کچھ سوچ رہا ہوں

پھر آج عدم شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سر شام میں کچھ سوچ رہا ہوں

خمار بارہ بنکوی : ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی


ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شدّت نہیں رہی

ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی

سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی

کمزوریِ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی

ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے
دامانِ یار سے کوئی نسبت نہیں رہی

پیہم طوافِ کوچۂ جاناں کے دن گئے
پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی

چہرے کو جھُرّیوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی

اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمار
اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی

خمار بارہ بنکوی : جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں

اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں

اے جوشِ گریہ دیکھ! نہ کرنا خجل مجھے
آنکھیں مری ضرور ہیں، آنسو پرائے ہیں

اے موت! اے بہشت سکوں! آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں

جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں

انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں

سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں

کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں

خمار بارہ بنکوی : ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں

ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں

اگر تُو خفا ہو تو پروا نہیں
ترا غم خفا ہو تو مر جاؤں میں

تبسّم نے اتنا ڈسا ہے مجھے
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں

سنبھالے تو ہوں خود کو تجھ بن مگر
جو چھُو لے کوئی تو بکھر جاؤں میں

مبارک خمار آپ کو ترکِ مے
پڑے مجھ پر ایسی تو مر جاؤں میں

خمار بارہ بنکوی : کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے


کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن، ملے صورتیں بدل کر

یہ وفا کی سخت راہیں، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے، مرے ساتھ ساتھ چل کے

وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے

یہ چراغِ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تُو جلا وہ شمع اے دل! جو بجھے کبھی نہ جل کے

نہ تو ہوش سے تعارف، نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے

کوئی اے خمار ان کو مرے شعر نذر کر دے
جو مخالفینِ مخلص نہیں معترف غزل کے

خمار بارہ بنکوی : ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے


ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے
دو گنہگار زہر کھا بیٹھے

حالِ غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے، تیر کھا بیٹھے

آندھیو! جاؤ اب کرو آرام
ہم کود اپنا دیا بجھا بیٹھے

جی تو ہلکا ہوا مگر یارو
رو کے ہم لطفِ غم گنوا بیٹھے

بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے

جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم
سب نے چھیڑا تو لب ہلا بیٹھے

ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے

اٹھ کے اک بے وفا نے دے دی جان
رہ گئے سارے با وفا بیٹھے

حشر کا دن ابھی ہے دُور خمار
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے

خمار بارہ بنکوی : وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں


وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں
محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے
خمار اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں

خمار بارہ بنکوی : یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے


یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے
خدا ہے محبت، محبت خدا ہے

کہوں کس طرح میں کہ وہ بے وفا ہے
مجھے اس کی مجبوریوں کا پتا ہے

ہوا کو بہت سر کشی کا نشا ہے
مگر یہ بھولے دیا بھی دیا ہے

میں اس سے جدا ہوں وہ مجھ سے جدا ہے
محبت کے ماروں پہ فضلِ خدا ہے

نظر میں ہے جلتے مکانوں کا منظر
چمکتے ہیں جگنو تو دل کانپتا ہے

کبھی لمحے گننا، کبھی سانسیں گننا
وہ بچھڑے ہیں جب سے یہی مشغلہ ہے

گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے
کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے

بڑی جان لیوا ہیں ماضی کی یادیں
بھُلانے کو جی بھی نہیں چاہتا ہے

کہاں تُو خمار اور کہاں کفرِ توبہ!
تجھے پارساؤں نے بہکا دیا ہے
 

خمار بارہ بنکوی : نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے

وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائی یہ دائمی ہے

کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ، نئی روشنی ہے

جفاؤں پہ گھُٹ گھُٹ کے چُپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے

مرے راہبر! مجھ کو گمراہ کر دے
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

خمارِ بلا نوش! تُو اور توبہ!
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے

خمار بارہ بنکوی : حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجیے

حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجیے
عشق کی مغفرت کی دعا کیجیے

اس سلیقے سے ان سے گلہ کیجیے
جب گلہ کیجیے ہنس دیا کیجیے

دوسروں پر اگر تبصرہ کیجیے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجیے

آپ سُکھ سے ہیں ترکِ تعلق کے بعد
اتنی جلدی نہ یہ فیصلہ کیجیے

زندگی کٹ*رہی ہے بڑے چین سے
اور غم ہوں تو وہ بھی عطا کیجیے

کوئی دھوکا نہ کھا جائے میری طرح
ایسے کھُل کے نہ سب سے ملا کیجیے

عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سُنیے، دل کا کہا کیجیے

احمد فراز : دن کو مسمار ہوئے، رات کو تعمیر ہوئے


دن کو مسمار ہوئے ، رات کو تعمیر ہوئے
خواب ھی خواب فقط ، روح کی جاگیر ہوئے

عمر بھر لکھتے رہے ، پھر بھی ورق ساده رہا
جانے کیا لفظ تھے ، جو ھم سے نا تحریر ھوئے

یہ الگ دکھ ہے کے ، ہاں تیرے دکھوں سے آزاد
یہ الگ قید ہے ہم ، کیوں نا زنجیر ہوئے

دیده و دل میں تیرے ، عکس کی تشکیل سے ہم
دھول سے پھول ہوئے ، رنگ سے تصویر ہوئے

کچھ نهیں یاد گزشتہ شب کی محفل میں فراز
هم جدا کس سے ہوئے ، کس سے بغل گیر ہوئے

مرزا اسد اللہ خان غالب : کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

حسن عباس رضا : آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شد


آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شد
تم کیا گئے، کہ شوقِ نظارا تمام شد

کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے، تو دریا تمام شد

دنیا تو ایک برف کی سل سے سوا نہ تھی
پہنچی ذرا جو آنچ، تو دنیا تمام شد

عشاق پر یہ اب کے عجب وقت آپڑا
مجنوں کے دل سے حسرت لیلٰی تمام شد

شہرِ دل تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے
کیا بچ گیا ہے راکھ میں، اور کیا تمام شد

ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے
سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد

اک یاد یار ہی تو پس انداز ہے حسن
ورنہ وہ کار عشق تو کب کا تمام شد

خالد علیم : بنایا دشت میں خوشبو نے راستا بھی تو کیا


بنایا دشت میں خوشبو نے راستا بھی تو کیا
کہ آندھیوں کے مقابل چلی ہوا بھی تو کیا

ٹھہر ٹھہر کے سلگتا ہوا شرارۂ جاں
جلا کے پیرہن خاک بجھ گیا بھی تو کیا

کہیں ہوا نہ سبک سار عکس آئنہ ساز
خود اپنی تاب سے آئینہ جل اٹھا بھی تو کیا

ملی نہ اس کو تگ و دَو کی گرمیِ آفاق
لہو بدن کی رگوں میں رواں ہوا بھی تو کیا

وہ سیل موج کہ اپنے حصار میں گم ہے
سمندروں کی تہوں سے ابل پڑا بھی تو کیا

بقدر رنگ نمو ہے فقط مہک اُس کی
”نفس کے زور سے وہ غنچہ وا ہوا بھی تو کیا

اعتبار ساجد : بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہوں

بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہوں
جہاں جاتا ہوں اپنے دل کا موسم ڈھونڈ لیتا ہوں

اکیلا خود کو جب محسوس کرتا ہوں کسی لمحے
کسی امید کا چہرہ کوئی غم ڈھونڈ لیتا ہوں

بہت ہنسی نظر آتی ہیں جو آنکھیں سر محفل
میں ان آنکھوں کے پیچھے چشم پرنم ڈھونڈ لیتا ہوں

گلے لگ کر کسی کے چاہتا ہوں جب کبھی رونا
شکستہ اپنے جیسا کوئی ہمدم ڈھونڈ لیتا ہوں

کیلنڈر سے نہیں مشروط میرے رات دن ساجد
میں جیسا چاہتا ہوں ویسا موسم ڈھونڈ لیتا ہوں

Tuesday, March 5, 2013

ساغر صدیقی : دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں

دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

زردار توقّع رکھتا ھے نادار کی گاڑھی محنت پہ؟؟؟
مزدور یہاں بھی دیوانے ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں

کچھ لوگ بھروسہ کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں انسان یہاں بھی اندھے ہیں

بے نام جفا کی راہوں پر کچھ خاک سی اڑھتی دیکھی ھے
حیران ہیں دلوں کے آئینے نادان یہاں بھی اندھے ہیں

بے رنگ شفق سی ڈھلتی ھے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصوّر بھوکا ھے سلطان یہاں بھی اندھے ہیں

ساغر صدیقی : رُودادِ محبّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

رُودادِ محبّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

ساغر صدیقی : میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست

میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست
سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست

مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست

ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست

دوچار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
دوچار دن کے پیار کا قائل نہیں ہُوں دوست

جس کی جھلک سے ماند ہو اشکوں کی آبُرو
اس موتیوں کے ہار کا قائل نہیں ہُوں دوست

لایا ہُوں بے حساب گناہوں کی ایک فرد
محبوب ہُوں شمار کا قائل نہیں ہُوں دوست

ساغر بقدرِ ظرف لُٹاتا ہُوں نقدِ ہوش
ساقی سے میں ادُھار کا قائل نہیں ہوں دوست

ساغر صدیقی : بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

گُم صُم کھڑی ہیں‌دونوں جہاں کی حقیقتیں
میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغر صدیقی : محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا

محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دَم توڑدیا

آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑدیا

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
اُن محبّت کی روایات نے دم توڑدیا

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا

ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑدیا

ساغر صدیقی : پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے

پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دئیے

نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دئیے
غنچہ کسی نے شاخ سےتو ڑا تورو دئیے

اڑتا ہوا غبار سر راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دئیے

بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دئیے

رنگ شفق سے آگ شگوفوں میں لگ گئی
سا غر ہمارے ہاتھ سے چھلکا تو رو دئیے

ساغر صدیقی : نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا

نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا
اب درد دل علاج و دوا سے گزر گیا

ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقام صورت و صدا سے گزر گیا

اعجاز بے خودی ہے کہ یہ حسن بندگی
اک بت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا

انصاف سیم و زر کی تجلی نے ڈس لیا
ہر جرم احتیاج سزا سے گزر گیا

الجھی تھی عقل و ہوش میں ساغر رہ حیات
میں لے کے تیرا نام فنا سے گزر گیا

ساغر صدیقی : کب سماں تھا بہار سے پہلے

کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں ‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے

ساغر صدیقی : بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے

بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ ﷺ آئے

ایک پیغام ، جو ہو دل میں اُجالا کردے
ساری دُنیا کو سُنانے کے لیے آپ ﷺ آئے

ایک مدّت سے بھٹکتے ہوئے انسانوں کو
ایک مرکز پہ بلانے کے لیے آپ ﷺ آئے

ناخدا بن کے اُبلتے ہوئے طوفانوں میں
کشتیاں پار لگانے کے لیے آپ ﷺ آئے

قافلہ والے بھٹک جائیں نہ منزل سے کہیں
دُور تک راہ دکھانے کے لیے آپ ﷺ آئے

چشمِ بید کو اسرارِ خدائی بخشے
سونے والوں کو جگانے کے لیے آپ ﷺ آئے

ساغر صدیقی : محمد ﷺ باعثِ حُسن جہاں ایمان ہے میرا

محمد ﷺ باعثِ حُسن جہاں ایمان ہے میرا
محمد ﷺ حاصلِ کون و مکاں ایمان ہے میرا

محمد ﷺ اوّل و آخر محمد ﷺ ظاہر و باطن
محمد ﷺ ہیں بہر صورت عیاں ایمان ہے میرا

شرف اِک کملی والے نے جنہیں بخشا ہے قدموں میں
وہ صحرا بن گئے ہیں گلستاں ایمان ہے میرا

محبت ہے جسے غارِ حرا میں رونے والے سے
وہ انساں ہے خدا کا رازداں ایمان ہے میرا

 معطّر کر گئے ساغرؔ فضائے گلشنِ ہستی
نبی ﷺ کے گیسوئے عنبر فشاں ایمان ہے میرا

ساغر صدیقی : جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسول ﷺ کی

جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسول ﷺ کی
کرتے ہیں مہر و ماہ اطاعت رسول ﷺ کی

ایمان ایک نام ہے حُبِّ رسول ﷺ کا
ہے خُلد کی بہار محبت رسول ﷺ کی

نوکِ مژہ پہ جن کی رہے اشکِ کربلا
پائیں گے حشر میں وہ شفاعت رسول ﷺ کی

غارِ حِرا کو یاد ہیں سجدے رسول ﷺ کے
دیکھی ہے پتھروں نے عبادت رسول ﷺ کی

دامانِ عقل و ہوش سہارا نہ دے مُجھے
چاہت خدا کی بن گئی چاہت رسول ﷺ کی

ساغرؔ تمام عالم ہستی ہے بے حجاب
آنکھوں میں بس رہی ہے وہ خلوت رسول ﷺ کی

ساغر صدیقی : سرمایہ حیات ہے سِیرت رسول ﷺ کی

سرمایہ حیات ہے سِیرت رسول ﷺ کی
اسرارِ کائنات ہے سِیرت رسول ﷺ کی

پُھولوں میں ہے ظہُور ستاروں میں نُور ہے
ذاتِ خُدا کی بات ہے سِیرت رسول ﷺ کی

بنجر دِلوں کو آپ نے سیراب کردیا
اِک چشمہ صفات ہے سِیرت رسول ﷺ کی

چشمِ کلیم ایک تجلّی میں بِک گئی
جلووں کی واردات ہے سیرت رسول ﷺ کی

جور و جفا کے واسطے برقِ ستم سہے
دُنیائے التفات ہے سیرت رسول ﷺ کی

تصویر زندگی کو تکلّم عطا کیا
حُسنِ تصّورات ہے سیرت رسول ﷺ کی

ساغرؔ سرور و کیف کے ساغر چھلک اُٹھے
صبحِ تجلّیات ہے سیرت رسول ﷺ کی

ساغر صدیقی : فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا

نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
جُنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے سب اچھا

دیارِ ماہ میں تعمیر مَے کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے سب اچھا

قفس میں یُوں بھی تسلّی بہار نے دی ہے
چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی ہے سب اچھا

وہ آشنائے حقیقت نہیں تو کیا غم ہے
حدیثِ نامہ بَری کہہ رہی ہے سب اچھا

تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا

حیات و موت کی تفریق کی کریں ساغرؔ
ہماری شانِ خودی کہہ رہی سب اچھا

ساغر صدیقی : چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ! بڑا اندھیرا ہے

فراز عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارہ
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ! بڑا اندھیرا ہے

بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے
مجھے یقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

جسے زبان خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

بنام زہرہ جبینانِ خطّہء فردوس
کسی کرن کو جگاؤ! بڑا اندھیرا ہے

ساغر صدیقی : کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہُوا

کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہُوا
اشک بھی حرفِ مُدّعا نہ ہُوا

تلخی درد ہی مقدّر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہُوا

ماہتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہُوا

آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا

وہ شہنشہ نہیں، بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہُوا

رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہُوا

ڈوبنے کا خیال تھا ساغرؔ
ہائے ساحل پہ ناخُدا نہ ہُوا

ساغر صدیقی : چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو

چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو
 عید آئی ہے بہاروں کی ردائیں سی لو

چشم ساقی سے کہو تشنہ اُمیدوں کے لیے
تُم بھی کچھ بادہ گُساروں کی ردائیں سی لو

ہر برس سوزن تقدیر چلا کرتی ہے
اب تو کُچھ سینہ فگاروں کی ردائیں سی لو

لوگ کہتے ہیں تقدس کے سُبو ٹوٹیں گے
جُھومتی رہگزاروں  کی ردائیں سی لو

قلرم خُلد سے ساغر کی صدا آتی ہے
اپنے بے تاب کناروں کی ردائیں سی لو

ساغر صدیقی : زخم دل پُر بہار دیکھا یے

زخم دل پُر بہار دیکھا یے
کیا عجب لالہ زار دیکھا یے

جن کے دامن میں کچھ نہیں یوتا
ان کے سینوں میں پیار دیکھا یے

خاک اُڑتی یے تیری گلیوں میں
زندگی کا وقار دیکھا یے

تشنگی یے صدف کے یونٹوں پر
گل کا سنیہ فگار دیکھا یے

ساقیا! اہتمام بادہ کر
وقت کو سوگور دیکھا یے

جزبہ غم کی خیر ہو ساغر
حسرتوں پر نکھار دیکھا یے

ساغر صدیقی : ذرا کُچھ اور قُربت زیرِ داماں لڑ کھڑاتے ہیں

ذرا کُچھ اور قُربت زیرِ داماں لڑ کھڑاتے ہیں
مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں

تخیّل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصّور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں

قرارِ دین و دُنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہے
سہارے دیکھ کر زُلفِ پریشاں لڑکھڑاتے ہیں

تیری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنامِ ہوش مدہوشی کے عُنواں لڑکھڑاتے ہیں

سُنو! اے عِشق میں توقیرِ ہستی ڈھونڈنے والو
یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں

تمہارا نام لیتا ہُوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں

کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ جن کی جنبشِ اَبرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں

یقینا حشر کی تقریب کے لمحات آپہنچے
قدمِ ساغرؔ قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں

ساغر صدیقی : چاکِ دامن کو جو دیکھا تو مِلا عید کا چاند

چاکِ دامن کو جو دیکھا تو مِلا عید کا چاند
اپنی تقدیر کہاں بُھول گیا عید کا چاند

اُن کے اَبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُھپا عید کا چاند

جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اُٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا عید کا چاند

دُور ویران بسیرے میں دِیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عِید کا چاند

لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے
آج بھی خُلد کی رنگین فضا عید کا چاند

تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر دَرد کے ماروں نے پیا عید کا چاند

چشم تو وُسعتِ افلاک میں کھوئی ساغرؔ
دِل نے اِک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند

ساغر صدیقی : ہَر شے ہے پُر ملال بڑی تیز دُھوپ ہے

ہَر شے ہے پُر ملال بڑی تیز دُھوپ ہے
ہَر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دُھوپ ہے

چکرا کے گِر نہ جاؤں میں اِس تیزُ دھوپ میں
مُجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دُھوپ ہے

دے حکم بادلوں کو خیابان نشین ہُوں
جام و سبُو اُچھال بڑی تیز دُھوپ ہے

ممکن ہے ابرِ رحمت یزداں برس پڑے
زُلفوں کی چھاؤں ڈال بڑی تیز دُھوپ ہے

اب شہر آرزُو میں وہ رعنائیاں کہاں
ہیں گلُ کدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے

سمجھی ہے جس کو سائیہ اُمّید عقلِ خام
ساغرؔ کا ہے خیال بڑی تیز دُھوپ ہے

ساغر صدیقی : دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں

دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں
بادہ خانوں کی خبر رکھتے ہیں

خارزاروں سے تعلق ہے ہمیں
گُلستانوں کی خبر رکھتے ہیں

ہم اُلٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب
ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں

اُن کی گلیوں کے مکینوں کی سُنو
لا مکانوں کی خبر رکھتے ہیں

چند آوارہ بگولے اے دوست
کاروانوں کی خبر رکھتے ہیں

زخم کھانے کا سلیقہ ہو جنہیں
وہ نشانوں کی خبر رکھتے ہیں

کُچھ زمینوں کے ستارے ساغرؔ
آسمانوں کی خبر رکھتے ہیں

ساغر صدیقی : وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گی

وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گی
اِک تیرے وصل کی گھڑی ہو گی

دستکیں دے رہی ہے پَلکوں پر
کوئی برسات کی جَھڑی ہو گی

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پُھول کی ایک پنکھڑی ہو گی

زُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی

اے عدم کے مسافرو! ہُشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی

کیوں گِرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کِسی پھول کی اَڑی ہو گی

التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے دَر پر کہیں پڑی ہو گی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی

ساغر صدیقی : چمن لُٹ رہا ہے صبا رو رہی ہے

چمن لُٹ رہا ہے صبا رو رہی ہے
پئے سوگواراں فضا رو رہی ہے

شہادت پہ اکبرؓ کی ساری خدُائی
گریباں کُھلے ہیں وفا رو رہی ہے

فرشتے سر عرش ماتم کناں ہیں
کہ پیاسوں کی خاطر گھٹا رو رہی ہے

ذرا خاک کربل کی توقیر دیکھو
کہ بنت نبی ْ کی ردا رو رہی ہے

وہ شبیرؓ  آئے ہیں نیزے کی زد پر
تڑپتی ہیں کر نیں‘ ضیا رو رہی ہے

بہاروں کے ہیں چاک دامان یارو
ہے نغموں کا ماتم‘ نوا رو رہی ہے

ہے تیرا جفا اور حلقوم اصغرؓ
جفاؤں پہ ساغر جفا رو رہی ہے

ابنِ انشاء : لب پر کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے

لب پر کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے
اے تصویر بنانے والی، جب سے تجھ کو دیکھا ہے

بے ترے کیا وحشت ہم کو، تجھ بن کیسا صبر و سکوں
تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے

نیلے پربت، اودی دھرتی، چاروں کوٹ میں تو ہی تو
تجھ سے اپنے جی خلوت، تجھ سے من کا میلا ہے

آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا
یوسف تو بازار وفا میں ایک ٹکے کو بکتا ہے

لے جانی اب اپنے من کے پیراہن کی گرہیں کھول
لے جانی اب آدھی شب ہے چار طرف سناٹا ہے

طوفانوں کی بات نہیں ہے، طوفاں آتے جاتے ہیں
تو اک نرم ہوا کا جھونکا، دل کے باغ میں ٹھہرا ہے

یا تو آج ہمیں اپنا لے یا تو آج ہمارا بن
دیکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جیتا ہے

فردا محض فسوں کا پردا، ہم تو آج کے بندے ہیں
ہجر و وصل وفا اور دھوکا سب کچھ آج پہ رکھتا ہے

ابنِ انشاء : کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا

کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا
کچھ نے کہا يہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تيرا

ہم بھي وہيں موجود تھے ہم سے بھي سب پوچھا کيے
ہم ہنس دئيے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تيرا

اس شہر ميں کس سے مليں، ہم سے چھوٹيں محفليں
ہر شخص تيرا نام لے، ہر شخص ديوانہ تيرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
الطاف کي بارش تيري، اکرام کا دريا تيرا

ہم پر يہ سختي کي نظر ہم ہيں فقير رہگزر
رستہ کبھي روکا تيرا دامن کبھي تھاما تيرا

ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا

بے درد سنني ہوتو چل کہتا ہے کيا اچھي غزل
عاشق تيرا، رسوا تيرا، شاعر تيرا، انشا تيرا

ابنِ انشاء : قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں درد ہو تم یا درماں ہو

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں درد ہو تم یا درماں ہو
دل میں تو آن بسے ہو لیکن مالک ہو یا مہماں ہو

دوری ، آگ سے دوری بہتر قربت کا انجام ہے راکھ
آگ کا کام فروزاں ہونا راکھ ضرور پریشاں ہو

سودا عشق کا سودا ہم جان کے جی کو لگایا ہے
عشق یہ صبر و سکوں کا دشمن پیدا ہو یا پنہاں ہو

عشق وہ آگ کہ جس میں تپ کر سونا کندن بنتا ہے
آگ میں تجھ کو کچھ نہیں ہو تو اس آگ میں بریاں ہو

شہر کے دشت کہو بھئی سادھو ہاں بھئی سادھو شہر دشت
ہم بھی چاک گریباں ٹھرے تم بھی چاک گریباں ہو

ابنِ انشاء : فقیر بن کر تم ان کے در پر ہزار دھونی رما کے بیٹھو

فقیر بن کر تم ان کے در پر ہزار دھونی رما کے بیٹھو
جبیں کے لکھے کو کیا کرو گے جبیں کا لکھا مٹا کے بیٹھو

اے ان کی محفل میں آنے والو اے سو دو سو دام بتانے والو
جو ان کی محفل میں آ کے بیٹھو تو ساری دنیا بھلا کے بیٹھو

بہت جتاتے ہو چاہ ہم سے مگر کرد گے نباہ ہم سے
ذرا ملاؤ نگاہ ہم سے ، ہمارے پہلو میں آ کے بیٹھو

جنوں پرانا ہے عاشقوں کا جو یہ بہانہ ہے عاشقوں کا
تو اک ٹھکانا ہے عاشقوں کا حضور جنگل میں جا کے بیٹھو

ہمیں دکھاؤ زرد چہرا ، لیے یہ وحشت کی گرد چہرا
رہے گا تصویر درد چہرا جو روگ ایسے لگا کے بیٹھو

جناب انشا یہ عاشقی ہے جناب انشا یہ زندگی ہے
جناب انشا جو ہے یہی ہے نہ اس سے دامن چھڑا کے بیٹھو

ابنِ انشاء : سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ رقیبوں نے

سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ رقیبوں نے
خطبے میں لیکن نام ہمیں لوگوں کا پڑھا خطیبوں نے

شب کی بساط ناز لپیٹو ، شمع کے سرد آنسو پونچھو
نقارے پر چوب لگا دی صبح کے نئے نقیبوں نے

کس کو خبر ہے رات کے تارے کب نکلے کب ڈوب گئے
شام و سحر کا پیچھا چھوڑا آپ کے درد نصیبوں نے

امن کی مالا جپنے والے جیالے تو خاموش رہے
فتح مبین کے جھنڈے گاڑے شہر بہ شہر صلیبوں نے

انشا جی اب آئے جو ہو دو بیت کہوا ور اٹھ جاؤ
تمہی کہو تمہیں شاعر ما نا کب سے بڑے ادیبوں نے

ابنِ انشاء : رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانےتھے

رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانےتھے
دھندلے دھندلے چہرے تھے، پر سب جانے پہچانے تھے

ضدّی، وحشی، الہڑ، چنچل، میٹھے لوگ رسیلے لوگ
ہونٹ ان کے غزلوں کے مصرعے، آنکھوں میں افسانے تھے

وحشت کا عنوان ہماری، ان میں سے جو نام بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے، انشاء جی دیوانے تھے

یہ لڑکی تو ان گلیوں میں روز ہی گھوما کرتی تھی
اس سے ان کو ملنا تھا تو اس کے لاکھ بہانے تھے

ہم کو ساری رات جگایا، جلتے بُجھتے تاروں نے
ہم کیوں ان کے در پر اُترے، کتنے اور ٹھکانے تھے

ابنِ انشاء : دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا

دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا
ایک ستارا بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا

آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے تو انکار کیا تھا، دل کب نا امید ہوا

آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی؟
لب پر اس کے نام تھا تیرا، جب بھی درد شدید ہوا

ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کو دریچے میں
جانو اک بجلی لہرائی، عالم ایک شہید ہوا

تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا، عرضِ وفا کی سنتے ہیں
پہے کون قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا

دنیا کے سب کارج چھوڑے، نام پہ تیرے انشاء نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے ? تیرا عشق مزید ہوا

ابنِ انشاء : دیکھ مری جاں کہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے، ہُو

دیکھ مری جاں کہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے، ہُو
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں کریں دوانے ہُو

جوگی بھی جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں

شاعر بھی جو میٹھی بالی بول کہ من کو ہرتے ہیں
بنجارے جو اونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

ان میں سچّے موتی بھی ہیں، ان میں کنکر پتھر بھی
ان میں اتھلے پانی بھی ہیں، ان میں گہرے ساگر بھی

گوری دیکھ کے آگے بڑھنا، سب کا جھوٹا سچّا، ہُو
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گھڑا تھا جس کا کچّا ہُو

ابنِ انشاء : جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا

جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا
کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا

کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن،رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن
جہان حُسن ملا وہاں بیٹھ گئے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا

شبِ ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا، کبھی بیت کہے ، لکھی چاندنگر
کبھی کوہ سے جاسر پھوڑ مرے، کبھی قیس کو جا استاد کیا

یہی عشق بالآخر روگ بنا، کہ ہے چاہ کے ساتھ بجوگ بنا
جسے بننا تھا عیش وہ سوگ بنا، بڑا مَن کے نگر میں فساد کیا

اب قربت و صحبتِ یار کہاں، اب و عارض و زلف و کنار کہاں
اب اپنا بھی میر سا عالم ہے، ٹک دیکھ لیا جی شاد کیا

ابنِ انشاء : انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا

اس دل کے دريدہ دامن میں، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا

شب بيتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجير پڑی دروازے پہ
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کيا

پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

اس حسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا

ابنِ انشاء : اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں، یاد رہے گا

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

کچھ میر کے ابیات تھے کچھ فیض کے نسخے
اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا

جاں بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو، یاد رہے گا، ہاں ہمیں یاد رہے گا

ابنِ انشاء : اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے

ہم اہل محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہل محبت کو آزاد جوانی ہے

ہاں چاند کے داغوں کو سینے میں بساتے ہیں
دنیا کہے دیوانا ۔۔۔ دنیا دیوانی ہے

اک بات مگر ہم بھی پوچھیں جو اجازت
کیوں تم نے یہ غم یہ کر پردیس کی ٹھانی ہے

سکھ لے کر چلے جانا ، دکھ دے کر چلے جا نا
کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہدیہ دل مفلس کا چھ شعر غزل کے ہیں
قیمت میں تو ہلکے ہیں انشا کی نشانی ہے

کشور ناہید : ہم کے ملغوبِ گماں تھے پہلے

ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
پھر وہیں ہیں کہ جہاں تھے پہلے

خواہشیں جھریاں بن کرابھریں
زخم سینے میں نہاں تھے پہلے

اب تو ہر بات پہ رو دیتے ہیں
واقفِ سود و زیاں تھے پہلے

دل سے جیسے کوئی کانٹا نکلا
اشک آنکھوں سے رواں تھے پہلے

اب فقط انجمن آرائی ہیں
اعتبارِ دل و جاں تھے پہلے

دوش پہ سر ہے کہ ہے برف جمی
ہم تو شعلوں کی زباں تھے پہلے

اب تو ہر تازہ ستم ہے تسلیم
حادثے دل پہ گراں تھے پہلے

میری ہمزاد ہے تنہائی میری
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے

کشور ناہید : بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے ؟

بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے ؟
اُس دل میں دردِ شوقِ تمنا کہاں سے آئے ؟

بے کار شرحِ لفظ و معنی سے فائدہ
جب تو نہیں تو شہر میں تُجھ سا کہاں سے آئے ؟

ہر چشم سنگِ خذب و عداوت سے سرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرانا کہاں سے آئے

وحشت حواس کی چاٹ گئی خاکِ جسم کو
بے در گھروں میں شاکی کا سایا کہاں سے آئے

جڑ سے اُکھڑ گئے تو بدلتی ُرتوں سے کیا
بے آب آئینوں میں سراپا کہاں سے آئے ؟

سایوں پہ اعتماد سے اُکتا گیا ہے جی
طوفاں میں زندگی کا بھروسہ کہاں سے آئے ؟

غم کے تھپیڑے لے گیا ناگن سے لمبے بال
راتوں میں جنگلوں کا وہ سایہ کہاں سے آئے ؟