Thursday, March 14, 2013

عدیم ہاشمی : دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک


دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک
اپنی نظر ہی رہ گئی گرد و غبار تک

موسم بھی اپنی اپنی حدوں کے اِسیر ہیں
عہدِ خزاں ہے آمدِ فصلِ بہار تک

صحن خزاں میں پاؤں دھرے، کیا مجال ہے
فصلِ بہار قید ہے فصلِ بہار تک

معیاد قید ایک گھڑی پیش و کم نہیں
ممکن نہیں ہے قیدِ جہاں سے فرار تک

جو لکھ دیا جبیں پہ، اُسے لکھ دیا گیا
پابند اُس کے بعد ہے پرَوردگار تک

قسمت میں جو نہیں ہے، ملے گا وہ کِس طرح
ترک اِس لیے کِیا ہے تِرا اِنتظار تک

لکھا نہیں ہے وصل فقط کاتبین نے
تحریر ہو رہا ہے تِرا اِنتظار تک

اپنے کنوئیں ہیں جِن میں پُھدکتے ہیں سارے لوگ
محصُور ہیں عدیم سب اپنے حصار تک

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔