Thursday, March 14, 2013

احمد فراز : دن کو مسمار ہوئے، رات کو تعمیر ہوئے


دن کو مسمار ہوئے ، رات کو تعمیر ہوئے
خواب ھی خواب فقط ، روح کی جاگیر ہوئے

عمر بھر لکھتے رہے ، پھر بھی ورق ساده رہا
جانے کیا لفظ تھے ، جو ھم سے نا تحریر ھوئے

یہ الگ دکھ ہے کے ، ہاں تیرے دکھوں سے آزاد
یہ الگ قید ہے ہم ، کیوں نا زنجیر ہوئے

دیده و دل میں تیرے ، عکس کی تشکیل سے ہم
دھول سے پھول ہوئے ، رنگ سے تصویر ہوئے

کچھ نهیں یاد گزشتہ شب کی محفل میں فراز
هم جدا کس سے ہوئے ، کس سے بغل گیر ہوئے

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔