Thursday, March 14, 2013

عدیم ہاشمی : اور ہے، اپنی کہانی اور ہے


اور ہے، اپنی کہانی اور ہے
داستاں اُس کو سُنانی اور ہے

میں تو سویا تھا ستارے اُڑھ کر
یہ رِدائے آسمانی اور ہے

ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اُس سمندر کا تو پانی اور ہے

پُھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اُس کی اِک عادت پُرانی اور ہے

اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے

اُس کے گھر کی اِک نشانی اور ہے

یُوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اِک عہدِ جوانی اور ہے

پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔