Thursday, March 14, 2013

عدیم ہاشمی : اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا


اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا
وصل تھا یا وصال تھا، کیا تھا

عشق ماہی مثال تھا، کیا تھا
دل کے دریا میں جال تھا، کیا تھا

تم تو ایسے مجھے نہیں لگتے
یہ تمہارا خیال تھا، کیا تھا

کچھ سفید اور کچھ سیاہ تھے بال
میرا ماضی تھا، حال تھا، کیا تھا

نِیم وا چشم، نِیم وا سا دَہن
یہ سوالِ وصال تھا، کیا تھا

ایک تخلیق، ایک چشمِ حسیں
وہ غزل تھی، غزال تھا، کیا تھا

اِتنی بےچینیاں، خُدا کی پناہ
یہ مِرے دل کا حال تھا، کیا تھا

مِٹ گیا ایک اشک بہتے ہی
تِرے چہرے پہ خال تھا، کیا تھا

خُود کھنچے جا رہے تھے جِسم عدیم
لمحۂ اِتّصال تھا، کیا تھا

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔