مجھے سہل ہو گیں منزلیں ،وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجاے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر
اڑی زلف چہرے پے اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو نہ وہ کیہ سکے مرے شعر و نغموں میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنھیں چھو سکا ،قدح شعراب میں ڈھل گئے
تجھے چشم مست پتا بھی ہے کہ شباب گرمی بزم ہے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ جہاں کے طور بدل گے
وہی استان ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستین
دل زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے
میرے کام آ گئی آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں
بڑھیں اس قدر میری منزلیں کہ قدم کے خار بدل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجاے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر
اڑی زلف چہرے پے اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو نہ وہ کیہ سکے مرے شعر و نغموں میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنھیں چھو سکا ،قدح شعراب میں ڈھل گئے
تجھے چشم مست پتا بھی ہے کہ شباب گرمی بزم ہے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ جہاں کے طور بدل گے
وہی استان ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستین
دل زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے
میرے کام آ گئی آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں
بڑھیں اس قدر میری منزلیں کہ قدم کے خار بدل گئے
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔