Monday, April 18, 2011

ناصر کاظمی : آج تو بے سبب اداس ہے جی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی

آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی



0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔