Monday, April 18, 2011

نصیر احمد ناصر : جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں

جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں
ہاتھوں میں تھی کتاب مگر سو رہا تھا میں

جب رات اپنے رقص کی دیوانگی میں تھی
نکلا وہ ماہتاب مگر سو رہا تھا میں

جلتی تھی لالٹین کہیں دور گاؤں میں
روشن تھا کوئی باب مگر سو رہا تھا میں

اک خوابگوں سی دھند تھی آنکھوں کی جھیل میں
سورج تھا زیر آب مگر سو رہا تھا میں

مجھ کو پکارتے رہے ناصر تمام رات
خوشبو، ہوا، گلاب مگر سو رہا تھا میں


0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔