Monday, April 18, 2011

سردار شیزاد نواز : لکھتا ہوں کوئی شعر میں جب خون جگر سے

لکھتا ہوں کوئی شعر میں جب خون جگر سے
پتھر بھی پگھلتے ہوئے پاتا ہوں اثر سے

شاید کبھی اپنایا تھا میں نے بھی کسی کو
جاتا نہیں ایک عکس سا کیوں قلب نظر سے

بس اتنی خبر ہے کہ ہمیں کر گیا برباد
آیا تھا کوئی شخص خدا جانے کدھر سے

دو چار برس میرے بھی گزرے ہیں وہاں پر
وابستہ ہیں یادیں میری ظالم کے نگر سے

یہ حکم ہے اس بادشاہ حسن کا یاروں
دیوانوں سے کہ دو کہ وہ گزرن نہ ادھر سے

ہر رنگ میں ہر حل میں کیوں دیکھیں ترا روپ
چھپ جائے یہ گستاخ ، میں کہتا ہوں قمر سے

شہزاد بڑی در کے بعد آنکہ کھلی ہے
اجڑا ہوا نکلا ہوں محبت کے شہر سے



0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔