دل سے میرے وہ ستم گر نکلا
آئنہ توڑ کے پتھر نکلا
اس کی آنکھوں میں کنارہ تھا کوئی
ڈھونڈنے جس کو سمندر نکلا
تو اگر خواب تھا میرا تو بتا!
کیوں مری نیند سے باہر نکلا
منزلیں ہاتھ کی دوری پہ رہیں
راستہ پاؤں کا چکر نکلا
پھر ہوئی قید کوئی شہزادی
پھر حویلی سے کبوتر نکلا
ایک دل تھا کہ سرشام بجھا
ایک آنسو تھا کہ جل کر نکلا
زلزلے مجھ میں کچھ ایسے آئے
اک جزیرہ مرے اندر نکلا
دیکھتی رہ گئیں آنکھیں ناصر
ایسا منظر پس منظر نکلا
آئنہ توڑ کے پتھر نکلا
اس کی آنکھوں میں کنارہ تھا کوئی
ڈھونڈنے جس کو سمندر نکلا
تو اگر خواب تھا میرا تو بتا!
کیوں مری نیند سے باہر نکلا
منزلیں ہاتھ کی دوری پہ رہیں
راستہ پاؤں کا چکر نکلا
پھر ہوئی قید کوئی شہزادی
پھر حویلی سے کبوتر نکلا
ایک دل تھا کہ سرشام بجھا
ایک آنسو تھا کہ جل کر نکلا
زلزلے مجھ میں کچھ ایسے آئے
اک جزیرہ مرے اندر نکلا
دیکھتی رہ گئیں آنکھیں ناصر
ایسا منظر پس منظر نکلا
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔