آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شد
تم کیا گئے، کہ شوقِ نظارا تمام شد
کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے، تو دریا تمام شد
دنیا تو ایک برف کی سل سے سوا نہ تھی
پہنچی ذرا جو آنچ، تو دنیا تمام شد
عشاق پر یہ اب کے عجب وقت آپڑا
مجنوں کے دل سے حسرت لیلٰی تمام شد
شہرِ دل تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے
کیا بچ گیا ہے راکھ میں، اور کیا تمام شد
ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے
سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد
اک یاد یار ہی تو پس انداز ہے حسن
ورنہ وہ کار عشق تو کب کا تمام شد
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔