Thursday, March 14, 2013

خالد علیم : بنایا دشت میں خوشبو نے راستا بھی تو کیا


بنایا دشت میں خوشبو نے راستا بھی تو کیا
کہ آندھیوں کے مقابل چلی ہوا بھی تو کیا

ٹھہر ٹھہر کے سلگتا ہوا شرارۂ جاں
جلا کے پیرہن خاک بجھ گیا بھی تو کیا

کہیں ہوا نہ سبک سار عکس آئنہ ساز
خود اپنی تاب سے آئینہ جل اٹھا بھی تو کیا

ملی نہ اس کو تگ و دَو کی گرمیِ آفاق
لہو بدن کی رگوں میں رواں ہوا بھی تو کیا

وہ سیل موج کہ اپنے حصار میں گم ہے
سمندروں کی تہوں سے ابل پڑا بھی تو کیا

بقدر رنگ نمو ہے فقط مہک اُس کی
”نفس کے زور سے وہ غنچہ وا ہوا بھی تو کیا

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔