Sunday, June 12, 2011

سعد اللہ شاہ : ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیں‌ظالم کی پشیمانی کو

کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو

شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو

تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو

دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو

ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو

جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔