اب کے تجدیدِوفا کا نہیں اِمکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
بِن پیۓ ہی تیرا چہرا تھا گُلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم تھا کہ اب یاد نہیں
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
ہم کہ رُوٹھی ہوئی رُت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسمِ ہِجراں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کِس قدر جلد بدل جاتے ہیں اِنساں جاناں
دل سمجھتا تھا کہ شاید ہو فسُردہ تُو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
مدّتوں سے یہی عالم نہ توقع، نہ اُمید
دل پُکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسی بھی گزاری تیرا احساں جاناں
اب تیرا نام بھی شاید ہی غزل میں آۓ
اور سے اور ہوۓ درد کے عُنواں جاناں
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔