Sunday, June 12, 2011

قتیل شفائی : تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ، ایسے تو حالات نہیں

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ، ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ھے ، اور تو کوئی بات نہیں

کس کو خبر تھی سانولے بادل ِبن برسے اڑ جاتے ھیں
ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں

ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رھی ھے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں

غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں
ُتو پر ُتو ھے، میرا تو سایا بھی میرے ساتھ نہیں

مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ھے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں

ختم ھوا میرا افسانہ اب یہ آنسو پونچھ بھی لو
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں

میرے غمگیں ھونے پر احباب ھیں یوں حیراں قتیل
جیسے میں پتھر ھوں ، میرے سینے میں جذبات نہیں

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔