Monday, April 18, 2011

انور مسعود : کب ضیاء بار ترا چہرہ ِ زیباہوگا

کب ضیاء بار ترا چہرہ ِ زیباہوگا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اُجالا ہوگا

مشغلہ اُس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا

جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبعیت اُس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اُس کو منانا ہوگ
ا
اِس طرف شہر اُدھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا

یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہوگا

آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انور
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے یدِ بیضا ہوگا

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔