Monday, April 18, 2011

عزم بہزاد : بولتے ہیں یوں کہ شاید خود کو سُننا چاہتے ہیں

بولتے ہیں یوں کہ شاید خود کو سُننا چاہتے ہیں
اپنے سر ہم اپنی ہی باتوں پہ دُھننا چاہتے ہیں

پہلے اپنی خواہشوں کو ہم نے ہر جانب بکھیرا
اب انھیں حسرت زدہ پلکوں سے چُننا چاہتے ہیں

اپنی چُپ کا اک سبب یہ ہے کہ فرہنگ_بیاں میں
لفظ وہ ناپید ہیں ، جو لوگ سُننا چاہتے ہیں



0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔