وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں
ٹکرائی بھی تو جا کے نظر سے نظر کہاں
جانا ہے تم کو جاؤ، چلے ہو مگر کہاں
میں ڈُھونڈتا پھروں گا تمہیں دَر بہ دَر کہاں
قصرشہی کی بات ہے قصر شہی کے ساتھ
تیری گلی کہاں ، تِرے دیوار و دَر کہاں
دولت سے خوابگاہ تو جو بھی خرید لو
نِیندیں مگر خرید سکے مال و زَر کہاں
تُو آگ ہی لگا کے ذرا خُود کو دیکھ لے
تجھ پر یوُنہی پڑے گی کِسی کی نظر کہاں
میں اپنا آپ ڈُھونڈ رہا ہوں جہان میں
مجھ کو عدیم اور کِسی کی خبر کہاں
یہ کِس مقابلے کے لیے جا رہے ہو تم
آنسو کہاں عدیم، صدف کا گہر کہاں
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔