Tuesday, March 5, 2013

ساغر صدیقی : وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گی

وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گی
اِک تیرے وصل کی گھڑی ہو گی

دستکیں دے رہی ہے پَلکوں پر
کوئی برسات کی جَھڑی ہو گی

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پُھول کی ایک پنکھڑی ہو گی

زُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی

اے عدم کے مسافرو! ہُشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی

کیوں گِرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کِسی پھول کی اَڑی ہو گی

التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے دَر پر کہیں پڑی ہو گی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔