شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی
ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے
کیوں ملاقات عُمر بھر نہ ہوئی
اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے
کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی
تیری قُربت کی روشنی کی قسم
صُبح آئی مگر سحر نہ ہوئی
ہم نے کیا کیا نہ کر کے دیکھ لیا
کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی
کتنے سُورج نِکل کے ڈُوب گئے
شامِ ہجراں ! تری سحر نہ ہوئی
اُن سے محفل رہی ہے روز و شب
دوستی اُن سے عُمر بھر نہ ہوئی
یہ رہِ روزگار بھی کیا ہے
ایسے بچھڑے کہ پھر خبر نہ ہوئی
اِس قدر دُھوپ تھی جُدائی کی
یاد بھی سایۂ شجر نہ ہوئی
شبِ ہجراں ہی کٹ سکی نہ عدیم
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔