Wednesday, June 22, 2011

سرور عالم راز سرور : ابتدائے شوق کااعلانِ مستانہ ہوں میں

ابتدائے شوق کااعلانِ مستانہ ہوں میں
انتہائے عشق کا اظہارِ رندانہ ہوں میں

کھیل ہے دنیا کی ہر فرزانگی میرے لئے
اور ظالم یہ سمجھتی ہے کہ دیوانہ ہوں میں!

آشنائے حسن ہوں، مستِ ہوائے شوق ہوں
محفلِ اہلِ خرد میں ایک ہی دانا ہوں میں

وہ فغاں سینے میں گھٹ گھٹ کر جو آخر مر گئی
جو ادھورا رہ گیا ہونٹوں پہ، افسانہ ہوں میں

دیکھ یہ رنگِ خودی، دیوانہ دیوانوں میں ہوں
اور یہ بھی دیکھ، فرزانوں میں فرزانہ ہوں میں!

وہ حریم شوق اور خلوت کی وہ نیرنگیاں
کیسی عالم ساز یادوں کا صنم خانہ ہوں میں!

کوئی دن جاتا ہے محفل میں چھلک جاؤں گا میں
آبِ تلخِ زیست سے لبریز پیمانہ ہوں میں

یہ تما شا گاہِ عالم اور یہ میری بیخودی
کیا کہوں دنیا کی جب خود سے ہی بیگانہ ہوں میں

چھیڑتے ہیں کیوں مجھے یہ مے گسارانِ سخن؟
لاکھ بے قیمت ہوں پر معیارِ میخانہ ہوں میں!

یادِ ماضی بھی اِدھر آتے ہوئے گھبرائے ہے
کس قدر وحشت ہے، ویرانہ سا ویرانہ ہوں میں!

یاد آتا ہے مجھے سرور! سرِ دارِ خرد
وہ ترا کہنا کہ ”دیوانہ ہوں، دیوانہ ہوں میں

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔