Sunday, June 12, 2011

مظفر منصور : آئینے کی بزم تھی اک آئینہ تھا سامنے

آئینے کی بزم تھی اک آئینہ تھا سامنے
آشنا بیٹھا تھا کوئی آشنا تھا سامنے

کیسا نظارہ کہ ہوشِ دید ہی جاتا رہا
وہ قیامت حسن وہ قامت حیا تھا سامنے

ہوش ہوتے بھی تو کیا الفاظ میں ڈھلتا وہ شوخ
جانیئے کیا کیا نہاں تھا جانے کیا تھا سامنے

مانگنا آتا نہیں ورنہ اسی کو مانگتا
میں رہا خاموش سر تاپا دعا تھا سامنے

میری آنکھوں میں نہیں تھا جلوہ گر چہرہ تیرا
اک حیاء پیکر کا چہرہ آ گیا تھا سامنے

میں اک اپنی دھن میں تیری بزم کی رونق رہا
جانیئے کیا ناروا تھا کیا روا تھا سامنے

ہجر کی بارش میں جلتا تھا مرے دل کا نگر
سائباں میں بھیگتا وہ بھی کھڑا تھا سامنے

اک فسوں کے گھیر میں سب سے جدا رہتا ہے وہ
بھیڑ تھی عالم کی لیکن وہ جدا تھا سامنے

اپنی اپنی روشنی تھی اپنا اپنا تھا سفر
اک دیا تھا دل مرا اور اک دیا تھا سامنے

وہ جہاں جبریل بھی لا چار تھا اس اوج پر
اک محمد مصطفٰی تھا اک خدا تھا سامنے

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔