Monday, April 18, 2011

عبيد اللہ عليم : جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے

جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے

ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے

وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے

کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے

ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے

ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے

یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے

کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیمؔ
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے


0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔