Monday, April 18, 2011

خواجہ حیدر علی آتش : آئینہ خانہ کرینگے دل ناکام کو ہم

آئینہ خانہ کرینگے دل ناکام کو ہم
پھریں گے اپنی طرف روے دل آرام کو ہم

شام سے صبح تلک دور شراب آخر ہے
روتے ہیں دیکھ کے خنداں دہن جام کو ہم

یاد رکھنے کی جگہ ہے یہ طلسم حیرت
صبح کو دیکھتے ہی بھول گے شام کو ہم

آنکھ وہ فتنۂ دوران کسے دکھلاتا ہے
شعبدہ جانتے ہیں گردش ایام کو ہم

خون قاتل کو وہ سفاک سمجھتا ہے حلال
کسی غماز سے بھجواہیں گے پیغام کو ہم

پاؤں پکڑے ہیں زمین نے یہ تیرے کوچہ کی
رہ صد سالہ سمجھتے ہیں اب ایک گام کو ہم

کوچہ یار میں اپنا جو گزر ہوتا ہے
نگران رہتے ہیں حسرت سے در و بام کو ہم

حسن سے عشق کی خاطر ہے خدا نے بھیجا
کرتے ہیں آتش ، اسے آے ہیں جس کام کو ہم



0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔