Monday, April 18, 2011

عبید اللہ علیم : خیال وخواب ہوئی محبتیں کیسی

خیال وخواب ہوئی محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ھیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ھیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ھیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ھیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ھیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکائتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ھے
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عناتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ھے سیاستیں کیسی

نہ صاحبانِ جنوں ھیں نہ اہل کشف وکمال
ہمارے عہد میں*آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ھے سو وہ اب سنگ وخشت لاتا ھے
فضا یہ ہو تو دلوں کی نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ھے بچا رکھو خود کو
یہاں*صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔